یہ امر افسوس ناک ہے کہ پشاور شہر کے گرد تاریخی فصیل کو اب بھی تحفظ حاصل نہیں کچھ مفاد پرست طبقے یا تو اپنے گھروں کو وسیع کرنے کے لئے یا اپنے تجارتی مراکز کی قیمت بڑھانے کے لئے توڑ رہے ہیں یہ فصیل پشاور کے گورنر Avitabile نے تعمیر کرائی تھی جس کو پشاور کے باسیوں میں ابو طبیلہ کے نام سے پہچانا جاتا تھا‘اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج محسن اختر کیانی نے بجا کہا ہے کہ ملک میں ہر قسم کا قانون موجود ہے پر اس پر عمل درآمد کی اشد ضرورت ہے‘ چیف الیکشن کمشنر کے اس بیان سے شاذ ہی کوئی اختلاف کر سکتا ہے کہ کوئی صوبائی حکومت بھی بلدیاتی انتخابات کرانے کے واسطے تیار نہیں ہے ان جملہ ہائے معترضہ کے بعد چند دوسرے قومی اور عالمی معاملات کا تجزیہ کرنا بے جا نہ ہوگا۔اگلے روز تاشقند میں وزیر اعظم صاحب نے پھر کہا ہے کہ کابل دہشتگردوں کو روکے‘پر اس قسم کی نصیحت تو وطن عزیز کے حکام ایک عرصہ دراز سے افغان حکمرانوں کو ہر دور میں کرتے آئے ہیں‘پر اس کا نتیجہ صفر نکلا ہے‘ دہشت گردوں کو روکنا تو کجا افغان حکمرانوں نے اپنے ملک کے لوگوں کو افغانستان میں پاکستان کے سفارت خانوں پر حملے کرنے سے کبھی نہ روکا کئی مرتبہ افغانستان میں پاکستانی پرچم کی بے حرمتی ہوئی۔
‘ مجال ہے کہ افغان حکمرانوں نے ان کو پابند سلاسل کیا ہو یا کبھی سنگین سزادی ہو‘ کابل کے حکمرانوں نے ہمیشہ پاکستان کے بجائے ہر عالمی فورم میں بھارت کا ساتھ دیاہے‘مقام افسوس ہے کہ وطن عزیز کے حکمرانوں نے بھی افغانستان میں پاکستان کے قومی پرچم کی بے حرمتی کے واقعات پر بھی کوئی سخت موقف کبھی بھی اختیار نہ کیا جس سے افغانستان میں پاک دشمن عناصر کی حوصلہ افزائی ہوتی رہی۔