اب بھی اگر کسی کو شک ہے کہ ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے موجودہ بحران میں منصفانہ پالیسی پر کاربند ہے تو اسے اسرائیل کو 3 ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کی جو منظوری انہوں دی ہے اس کی تفصیلات ضرور پڑھنی چاہیے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کس قدر یہودیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے اس کا یہودی داماد جو اس کے مشیر خاص کا کردار ادا کر رہا ہے اس کے عالمی سیاست میں تمام فیصلوں پر بری طرح حاوی ہو چکا ہے‘ادھر یوکرائن کے امریکہ کے حالیہ دورے کے دوران ان سے امریکی صدر نے جس تلخ کلامی کا مظاہرہ کیا ہے وہ امریکی صدارت کے عہدے پر فائز فرد کو کسی طور زیب نہیں دیتا تھا کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ٹرمپ نے عالمی طاقت کے لئے مافیا جیسا کھیل شروع کر دیا ہے امریکی صدر نے واقعی حدہی کر دی ہے‘ اپنے اتحادیوں کو وائٹ ہاؤس میں میڈیا کے سامنے بٹھا کر ان کی ایسی کی تیسی کرنے کی ٹرمپ کی روش جو وہاب عام کر رہے ہیں اور دوسرے ممالک پر امریکہ کے سپر پاور ہونے کا جو وہ رعب جما رہے ہیں وہ کئی ممالک کے سربراہان کے لئے ناقابل برداشت ہوتاجا رہا ہے‘ یوکرائن اور امریکہ کے درمیان موجودہ کشمکش کو سمجھنے کے واسطے یہ بات جاننی ضروری ہے کہ 2013 میں یوکرائن میں تیل اور مخصوص معدنیات کے لا محدود زخائر دریافت ہوئے امریکہ پہلے 70 فیصد ذخائر چین کے پاس ہو نے کے باعث بلیک میل ہوا کرتا تھا‘ ادھر یورپ تیل اور گیس کے لئے روس کا ممنوں ن، دونوں فریقین نے موقع غنیمت جانتے ہوئے مغربی جمہوریت کا آئین لایا جس کے تحتیوکرائن نے نیٹو کا رکن بننے کا اعادہ کیا،پیوٹن نے بار بار امریکہ اور یورپ کو یاد دہانی کرائی کہ 1991 ء میں سویٹ یونین ٹوٹنے پر امریکہ نے یقین دہانی کرائی تھی کہ نیٹو مشرقی یورپ تک نہیں پھیلے گا جس کی خلاف ورزی ہوئی‘ انجام کار روس نے یوکرائن پر اس لئے حملہ کیا تا کہ وہ ان علاقوں پر قبضہ کر لے جو اس کی سرحد کے ساتھ نیٹو ممالک سے ملتے ہیں‘ پیوٹن یقین دہانی چا ہتا تھا کہ یوکرائن نیٹو کا ممبر نہ بنے گا اس وجہ سے یوکرائن کے تنازعے نے جنم لیا اور بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔
وفاقی حکومت کا 20 ارب روپے کا رمضان پیکج اس کی عوام دوستی کا واضح ثبوت ہے اس سے ملک کے 40 لاکھ افراد مستفید ہوں گے اسی قسم کے عوامی نوعیت کے جو منصوبے خصوصاً پنجاب میں گزشتہ ایک سال میں لا نچ کئے گئے ہیں ان کو اس ملک کے عام آدمی نے بہت پسند کیا ہے۔