انٹیلی جنس شیئرنگ میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعاون بڑھ رہا ہے، امریکہ کی جنوبی ایشیا پالیسی میں تبدیلی آ رہی ہے: سینیٹر مشاہد حسین

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد حسین نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عمران خان کی رہائی کے لیے ممکنہ مداخلت کی اپنی پیش گوئی سے متعلق براہ راست جواب دینے سے گریز کیا، تاہم انہوں نے امریکہ کی پاکستان کے حوالے سے پالیسی میں مثبت تبدیلی کو اجاگر کیا۔اخبار "دی نیوز" سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین نے امریکہ اور پاکستان کے بدلتے ہوئے تعلقات پر روشنی ڈالی، خاص طور پر اس پس منظر میں کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان کی انسداد دہشت گردی کے لیے کی گئی کوششوں کی تعریف کی۔انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کی اسٹیٹ آف دی یونین تقریر میں پاکستان کی تعریف کو کئی لحاظ سے اہمیت حاصل ہے۔ اول، یہ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی بار پاکستان کا کھلے عام تذکرہ تھا۔ دوم، یہ اس بات کی علامت ہو سکتی ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی میں ایک ممکنہ تبدیلی آ رہی ہے، جو صدر بائیڈن کی بھارت مرکوز پالیسی سے ہٹ کر پاکستان کو زیادہ اہمیت دے سکتی ہے۔ سوم، اس تقریر میں پاکستان کا ذکر ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور انٹیلی جنس شیئرنگ میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان قریبی تعاون بڑھ رہا ہے، خاص طور پر افغانستان کے تناظر میں۔سینیٹر مشاہد حسین نے یہ بھی نشاندہی کی کہ جہاں پاکستان کو امریکی صدر کی تقریر میں سراہا گیا، وہیں بھارت کو تجارتی ٹیرف کے معاملے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے مطابق، یہ اس بات کا اشارہ ہو سکتا ہے کہ امریکہ کی جنوبی ایشیا پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی آ رہی ہے۔انہوں نے کہاکہ"یہ پاکستان کے لیے ایک خوش آئند خبر ہے کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان کا ذکر اپنے سب سے اہم اور سب سے زیادہ دیکھے جانے والے خطاب میں کیا، جسے پوری دنیا میں سنا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان انسداد دہشت گردی اور انٹیلی جنس شیئرنگ کے معاملے پر قریبی تعاون ہے، خاص طور پر افغانستان کے حوالے سے۔ انہوں نے دلیل دی کہ ٹرمپ ایک غیر روایتی سیاستدان ہیں، جو بیوروکریٹک نظام کے بجائے ذاتی ترجیحات کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں، اور ان کے عمران خان کے ساتھ قریبی تعلقات سیاسی طور پر ایسا ماحول پیدا کر سکتے ہیں جو عمران خان کی قسمت پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔