غیر سنجیدہ امریکی صدر

اگر امریکی صدر ٹرمپ غیر ملکی سربراہان کو وائٹ ہاؤس کے اپنے اوول آفس میں ملاقات کے واسطے بلا کے اسی طرح بے عزت کرتے رہے کہ جس طرح انہوں  نے یوکرائن کے سر براہ کو حال ہی میں کیا ہے تو پھر کون اپنے آپ کو ان کے ہاتھ  بے عزت کرانے واشنگٹن جائے گا؟ یہ کس قسم کا امریکی عوام نے اپنا صدر چنا ہے کہ جو سنجیدہ و مدبر کم اور باکسر و پہلوان زیادہ نظر آ تا ہے‘کہاں گئے روزویلٹ‘جیفرسن‘ابراہام لنکن جیسے نابغے جو کبھی وائٹ ہاؤس کے مکین ہوا کرتے تھے۔  اس نے اپنی ٹیم میں جن افراد کو چنا ہے وہ بھی کوئی غیر معمولی ذہانت نہیں رکھتے  بجز اس کے کہ وہ ارب پتی  یا کھرب پتی بزنس مین ہیں‘کیا عالمی سطح پر تنازعات کیا کم تھے جو امریکی صدرنے گرین لینڈ کی ملکیت پر دعویٰ کر کے ایک نیا تنازعہ کھڑا کر دیاہے‘ سردست تو گرین لینڈ کو ڈنمارک کا حصہ قرار دیا جاتا ہے‘پر جغرافیائی  لحاظ سے وہ شمالی امریکہ کے قرب میں واقع ہے‘ اور قدرت نے اسے مختلف معدنیات سے بھرا ہوا ہے‘ امریکہ کو یہ خطرہ غالبا ًلاحق ہو گیا ہے کہ چونکہ گرین لینڈ سٹریٹجک strategicلحاظ سے بڑا اہم ہے‘کہیں روس اور چین اس کو قابو نہ کر لیں‘  دنیا کی  کی بڑی طاقت امریکہ کی سیاسی قیادت کو سنجیدہ ہونا چاہئے جس کی کم از کم ڈونلڈ ٹرمپ سے امید نہیں کی جا سکتی‘انہوں نے اگلے روز وزارت خارجہ کے کسی بندے کے بجائے اپنے بیٹے کو گرین لینڈ کے سلسلے میں حالات کا جائزہ لینے وہاں بھجوایا‘جیسے  وہ امریکہ کا صدر نہ ہو بلکہ اس کا بادشاہ ہو‘گو گرین لینڈ شمالی امریکہ کا حصہ ہے لیکن سیاسی اور ثقافتی لحاظ سے وہ یورپ کے ساتھ جڑا ہوا ہے‘گرین لینڈ کو دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ سمجھا جاتا ہے‘ گوکہ اس کی آبادی ایک لاکھ نفوس سے بھی کم ہے‘امریکہ کا صدر تو اس کو خریدنے تک  تلا ہوا  نظر آ رہا ہے  کیونکہ اس کی دانست میں امریکہ کی سکیورٹی کے لئے ضروری ہے کہ اسے امریکہ ہر قیمت پر حاصل کرے‘ امریکہ اور کئی  یورپی ممالک کے درمیان گرین لینڈ کے مستقبل پر شدید اختلاف رائے پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ ان ابتدائی جملہ ہاے معترضہ کے بعد چند اہم تازہ ترین قومی اور عالمی معاملات پر ایک طائرانہ نظر بے جا نہ ہوگی۔حکومت نے افغانیوں کو 31 مارچ تک ملک چھوڑ نے کا حکم تو دے دیا ہے‘پر خدا کرے اب اس پر سو فیصد عمل درآمد بھی ہو کیونکہ ماضی میں کئی کئی مرتبہ اس قسم کے حکم صادر کئے جا چکے ہیں‘ پر ان پر عمل نہیں ہوا۔ہمارے وہ ادارے جو اس کام پر مامور ہیں کہ قانون پر لوگوں کو عمل درآمد کرائیں چونکہ قوانین کو توڑنے والوں کے خلاف ایکشن نہیں لیتے اس لئے قوانین پر عمل درآمد تشنہ تکمیل رہتا ہے۔ہم اس موقع پر پھر یہ بات حکومت کے گوش گزار کریں گے کہ جب تک اس قسم کا سخت ویزا میکنزم افغانیوں پر لاگو نہیں کیا جاتا ہے جو برطانیہ اور امریکہ نے لاگو کیا ہوا ہے‘ افغانی پاکستان میں غیر قانونی طور پر آتے جاتے رہیں گے۔

نہ جانے ہمارے وزارت داخلہ اور خارجہ کے حکام اس بابت کیوں خواب خرگوش میں مبتلا ہیں۔کئی سیاسی مبصرین کو وفاقی کابینہ میں مزید وزرا ء کی شمولیت اچھی نہیں لگی‘ان کے نزدیک چونکہ ہماری معاشی حالت کافی دگرگوں ہے اور بیرونی قرضوں کے بناہم اپنا دال دلیا ہی پورا نہیں کرسکتے اس میں ایسے اقدامات کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔