اس زندگی کرنے کو کہاںسے جگرآوے

بے کیفی اور بے چینی کا ایک ختم نہ ہونےوالا موسم اپنے قدم مضبوط کرتا ہوا آ گے بڑھ رہا ہے‘یکسر ایک نیا تجربہ ہے جو طول پکڑتا جارہا ہے نا معلوم کا خوف تو انسانی زندگی کےساتھ ازل سے جڑا ہوا ہے کہ کب کس گھڑی نہ جانے کیا سے کیا ہو جائے یہ کانٹا تو ہمیشہ سے دل میں اٹکا رہا ہے لیکن اس کے با وجود زندگی آگے بڑھتی رہی ہے آگے بڑھ رہی ہے اسے آگے بڑھتے ہی رہنا چاہئے’شو کو جاری رہنا چاہئے ‘ اور شو جاری ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ زندگی کا قافلہ اب کے جس وادی پر خار سے گزر رہا ہے اس سے چہروں پر تناو¿ گھمبیر ہو چلا ہے اس نے اعصاب کو تھکاکر رکھ دیا ہے اور ذہنوں میں ایک بے نام سی ہلچل بپا کر رکھی ہے‘ پھر یہ دور میڈیا کی عملداری کا دور ہے جسکے پاس چاہے ان چاہے ہم نے اپنی آنکھیں اور کان رہن رکھے ہوئے ہیں جسکی وجہ سے ذہنی و قلبی کیفیات بھی انہی کے تابع ہیںسو ایک خود ساختہ قید با مشقت میں سانس لینے پر مامور یا مجبور ہیں‘ اب کے برس تو موسم گل کی بھی کسی دیوانے یا فرزانے کو کوئی خبر نہ ہوئی جانے کب پات ہرے ہوئے جانے کب گل کھلے اور جانے کب کم کم با دو باراں رہا اور جانے کتنی دیر تک باغوں میں پڑے جھولے جھولنے والوںکی راہ دیکھتے رہے‘کیونکہ اب کے حکم یہی تھا اور پھر حکمت عملی کا تقاضا بھی یہی تھا کہ گھروں میں رہیں ‘ بہت من چاہے تو اپنی کھڑکی سے اپنے حصے کا آسمان دیکھ لیں یا پھر چاندنی راتوں میں کچھ وقت چھت پر گزار دیں ‘کبھی کہا تھا اور آج دیکھ رہا ہوں کہ

جبر ہے یہ موسم کا ہم نے ان دنوں ناصر
 یار کی گلی جانا فرصتوں سے باندھا ہے
 
تب خبر نہ تھی کہ فر صتیں بھی تو باندھ لیاکرتی ہیں چلئے اس سے ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ بہت سی چیزیں‘ دیر سے سہی‘ سمجھ میں آنے لگی ہیںاس بار میں جب عید کی بابرکت ساعتوں میں گاو¿ں (اکوڑہ خٹک) جا رہا تھا تو بہت خوش تھاکیونکہ پشاور سے گاو¿ں تک ساٹھ کلو میٹر کے راستے میں ساٹھ لوگ بھی باہر نظر نہیں آئے حالانکہ بیچ میں تارو جبہ‘ پبی اور نوشہرہ کے بارونق بازار اور علاقے بھی پڑتے ہیں‘ ورنہ اس سے قبل جب جب جانا ہوا تھا تو بھرے پرے بازاروں سے ہو کر جانا پڑا تھاکیونکہ تب وائرس کی اس وبا کو دیوانے کی بڑ کہنے والوں کی کمی نہ تھی‘ کچھ اسے میڈیا کی اس عادت بد کا شاخسانہ قرار دے رہے تھے جس میں بات کا بتنگڑ بنا دیا جاتا ہے‘مگر اب وہی کہہ رہے ہیں کہ بھلے سے بتنگر ہی سہی مگر بات ہے تو بنا یا جاتا ہے ‘وہ جو میں نے نا معلوم کے خوف کی بات کی ہے وہ خوف اب اسلئے بھی گہرا ہو تا جا رہا ہے کہ اب اس ساگر میں ایک سرسوتی معلوم کی بھی شامل ہو گئی ہے اور یہ معلوم کا خوف ہے جو سانسوں کو کسی صورت ہموار نہیں رہنے دیتا‘ اس پر مستزاد یہ بھی کہ اطراف سے دل دکھانے والی خبریںبھی ایک تسلسل سے مل رہی ہیں جس سے ڈپریشن میں اور اضافہ ہو جاتا ہے‘ رمضان کے آخری عشرے میں ایک عزیز کے بچھڑنے کی خبر نے دیر تک ایک عجیب کیفیت میں رکھا‘تسلیم کہ زندگی اپنی دھن میں چلتی ہے اور قضا بھی گھات میں بیٹھی وقت مقررہ کا انتظار کر رہی ہوتی ہے کارواں بے خبر آگے بڑھتے جاتے ہیں اور کوئی کوئی راستے ہی میں اپنی منزل تک پہنچ جاتا ہے‘محمد اظہار الحق نے کہا ہے نا

غروب کا وقت تھا مقرر سو چل پڑا میں
 کسی کا پھر انتظار میں نے نہیں کیا تھا

لیکن میں اپنے جس عزیز حامد علی شاہ کے بچھڑنے کی بات کر رہا ہوں وہ کسی کا پھر انتظار نہیں کیا تھا والی کیفیت سے قدرے ہٹ کے یوں ہے کہ اس کے حافظ بھتیجے لعل بادشاہ گلاب کو جس شب تراویح میں ختم القران کی سعادت نصیب ہو نا تھی تو اسکے والد ہاشم علی شاہ نے اس سعادت کی خوشی میں شریک ہونے کےلئے تمام رشتہ داروں کو افطار ڈنر پر بلایا تھا‘اورمہمانوں کی خاطرداریوں میں حامد علی شاہ ہمیشہ کی طرح دل وجان سے لگے رہے‘ فیملی اکٹھ میں کوئی ایک شخص توجہ کا مرکز بن جاتا ہے اس شب حامد تھا دیر تک ہنسی مذاق چلتا رہا پھر انہوں نے برخوردار ذی شان سے کہا چلو مسجد چلتے ہیں ‘ انہوں نے جواب دیا ابھی تو وقت ہے کہنے لگے پھر اگلی صف میں جگہ نہیں ملے گی‘ دراصل انہیں بھتیجے کے ختم القران کی بہت خوشی تھی جلد ہی سب مسجد گئے‘نماز تراویح ہوئی‘ ختم القرن کی دعا ہوئی جسکے بعدمبارک سلامت کا سلسلہ بھی بہت دیر تک چلتا رہا‘ پھر مسجد سے واپس گھر آئے اور مہمانوں کی رخصتی شروع ہوئی جو قرب جوار سے اور زیادہ اکوڑہ خٹک سے آئے تھے ‘یہ واقعہ زیارت کاکا صاحب ؒ کے قصبے کے پاس ہی باغات میں گھرے ہوئے گاو¿ں ولئی کا ہے‘رات گئے حامد علی شاہ نے ایک ایک مہمان کو ہنستے کھیلتے رخصت کیا‘جو سحری کے آس پاس بس گھر پہنچے ہی تھے کہ اطلاع آئی کہ حامد علی شاہ چل بسے‘ کسی کو یقین نہ آیا کہ ابھی سب کو مسکراتے ہوئے اللہ حافظ کہنے والے کو اچانک کیا ہوا‘میں نے کہا ناکہ اسکا بچھڑنا اس لحاظ سے حیران کن تھا کہ سارے رشتہ داروں کےساتھ مل کر اپنی زندگی کے آخری لمحے ہنس کھیل کر مبارک سلامت کےساتھ گزارے اور پھر سب کو ان کی گاڑیوں تک چھوڑنے آئے گلے ملے اللہ حافظ کہا اور واپس گھر پہنچ کر جیسے مطمئن ہو کر آنکھیں موند لیں‘میں جب ان کے جنازے میں شرکت کے بعد ولئی سے واپس پشاور آ رہا تھا ۔

تو نہ اچانک مجھے اپنے ایک باکمال ‘ہر دلعزیز‘خوش طبیعت و خوش نظر فوٹو جرنلسٹ دوست زبیر میر یاد آگئے‘ یہ کوئی اکیس برس پرانی بات ہے کہ میں ایک معاصر روزنامہ کے آفس میں رات گئے بیٹھا ہواگپ شپ کےساتھ ٹھنڈی میٹھی ’ چیری ‘سے بھی پورا پورا انصاف کر رہا تھا۔میں نے محبی قیصر بٹ سے کہا کہ رات بیت چلی اور اب میرے جاگنے کا وقت شروع ہونےوالا ہے اسلئے اجازت دیجئے‘ کہنے لگے کہ گاڑی تو ہے نا۔ میں نے یاد دلایا کہ حضور آپ مجھے گھر سے اٹھا کرلائے ہیں‘ میری گاڑی تو گھر میں کھڑی ہے میں رکشہ لے کر چلا جاو¿ں گا ‘کہنے لگے نہیں نہیں‘زبیر میر دفتر میں ہے وہ میری گاڑی میں چھوڑ آئے گا‘ اصرار بے معنی تھا کہ وہ کب کسی کی مانتے ہیں‘ سو زبیر میر مجھے بلال ٹاو¿ن سے کوہاٹ روڈ چھوڑنے آیا‘ راستے میں بڑی اچھی گفتگو ہوئی‘میں نے شکریہ ادا کیا تودھیمی سی مسکراہٹ کےساتھ کہنے لگے شکریہ تو میرا بنتا ہے کہ رات کے آخری پہر آپکی صحبت میسر آئی‘پھر وہ ہاتھ ہلاتے ہوئے رخصت ہوئے‘ میں جس وقت نماز سے فارغ ہوا تو فون کی گھنٹی بجی‘لینڈ لائن کا زمانہ تھا‘فون پر قیصر بٹ تھے‘ کہنے لگے ” زبیر میر چلا گیا“میں نے کہا کہ جی جی وہ مجھے ڈراپ کر کے فورا چلے گئے تھے‘ پہنچے نہیں کیا؟کہنے لگے پہنچ گئے اور پھر ان کے رونے کی آواز دل چیرنے لگی‘ معلوم ہوا کہ واپس دفتر پہنچ کر گاڑی کھڑی کی دروازہ کھولا مگر اترے نہیںاور سٹیرنگ پر سر رکھ دیا‘کہانی ختم ہو چکی تھی‘ پشاور پریس کلب میں زبیر میر ہال ان کی یاد دلاتا ہے‘ اور اب اکیس برس بعد اس خبر نے بھی دکھی کر دیا کہ ان کی بیوہ ان کے چار بچوں کی پرورش کرتے اور سرطان سے لڑتے لڑتے رخصت ہو گئیں ‘میں نے کہا نا کہ اطراف سے دل دکھانے والی خبریںبھی ایک تسلسل سے مل رہی ہیں جس سے ڈپریشن میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔میر جی نے کہا ہے کہ
جب نام ترا لیجئے تب چشم بھرآوے
 اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے