امریکہ اوربھارت کی ریشہ دوانیاں

بزرگوں نے بجا فر مایا ہے کہ پہلے تولو اور پھر بولو انڈونیشیا کے قانونی سیاسی اور سلامتی امور کے وزیر محمدمحفوظ کو کورونا وائرس اور خواتین کے حوالے سے سے متنازع بیان دینا مہنگا پڑ گیا ہے‘ ان کے منہ سے کہیں یہ نکل گیا کہ کورونا وائرس بیوی کی طرح ہے اسے آپ کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پھر جب آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ یہ نہیں کرسکتے تو پھر اس صورت میں آپ اس کے ساتھ ہی جینا سیکھ جاتے ہیں‘ اس بیان پر دنیا میں میں کئی خواتین کی انجمنوں نے محمد محفوظ پر کڑی نکتہ چینی کی ہے اور وہ ان کے اس بیان کو صنفی تعصب پر مبنی قرار دے رہے ہیں‘ زبان کی لغزش نے انڈونیشیا کے اس وزیر کےلئے مشکلات پیدا کردی ہیں ‘اسی لئے تو سیانے حکمران ہمیشہ فی البدیہہ بولنے کے بجائے لکھی ہوئی تقریر پڑھا کرتے ہیں اس جملہ معترضہ کے بعد اگر بعض اہم تازہ ترین قومی اور بین الاقوامی امور کا کچھ تذکرہ ہو جائے تو وہ بے جا نہ ہو گا ‘ چین اور اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعے پر تعلقات تادم تحریر کافی کشیدہ نظر آ رہے ہیں انیس سو ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں بھارتی افواج کی چینی افواج کے ہاتھوں جو پٹائی ہوئی تھی اس کے زخم ابھی تک بھارتی فوج چاٹ رہی ہے اسے سمجھ نہیں آرہی کہ وہ اس بدنامی کا داغ کس طرح دھوئے‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ عددی لحاظ سے چینی فوج بھارتی فوج سے کافی بڑی اور مضبوط ہے‘ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی چین نے گزشتہ ساٹھ سال میں ایسی ترقی کی ہے کہ اسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے‘۔

بھارت اور اور چین کی اس دیرینہ دشمنی نے امریکہ کا کام کافی آسان کر دیا ہے‘امریکہ پس پردہ بھارت کی ہلاشیری کر رہا ہے اردو زبان کا ایک محاورہ ہے کہ دشمن کا دشمن دوست چونکہ چین بھارت کا پرانا دشمن ہے لہٰذا امریکہ بھارت کو اپنا دوست سمجھتا ہے ‘یہ دوستی بھارت کی گزشتہ حکومتوں کے دوران اتنی پروان نہیں چڑھی تھی جتنی یہ مودی کے دور اقتدار میں چڑھی ہے‘ تاریخ گواہ ہے کہ پنڈت نہرو کے دور حکومت میں چین بھارت دوستی ایک مثالی دوستی تصور کی جاتی تھی اور بنڈونگ کانفرنس اس کا مثالی ثبوت تھی امریکہ نہ صرف یہ کہ چین کو بھارت کےساتھ کسی جنگ میں الجھانا چاہتا ہے وہ کمال چالاکی سے بالواسطہ اور بلاواسطہ چین کے صوبہ سنکیانگ میں بھی بعض سیاسی عناصر کو بھی انگشت دے رہا ہے اور مقامی باشندوں کو چین کی حکومت کےخلاف بہکا رہا ہے‘ اسی طرح وہ ہانگ کانگ میں بھی چین کےلئے مشکلات پیدا کرنے کی کوششوں میں مشغول ہے‘۔

امریکہ کو معلوم نہ تھا کہ دھیرے دھیرے چین کی شکل میں ایک ایسی ایٹمی قوت دنیا میں ابھر رہی ہے کہ جسے دیکھ کر امریکا سوویت یونین کو بھول جائے گا‘چین کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ اس کی قیادت نے انیس سو انچاس سے لے کر اب تک کسی جگہ جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کیا اور حتی الوسع ا س کی کوشش یہ رہی کہ چینیوں کی تمام تر انرجی تعلیم زراعت اور سائنسی ریسرچ پر صرف ہو‘ امریکہ نے اس دوران کتنی بار کوشش کی کہ چین کو کسی مسئلے پر مشتعل کرکے کسی جنگ میں الجھا دیا جائے تاکہ اس کی انرجی ضائع ہو جائے پر یہ کریڈٹ چینی قیادت کو جاتا ہے کہ اس نے صبر کا دامن کبھی نہ چھوڑا اور یہ اس کی دور اندیشی کا نتیجہ ہے کہ آج چین دنیا کے کسی بھی سپر پاور کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا ہے۔