کورونا وبا کے باعث عالمی سطح پر وسیع لاک ڈاﺅن اور ہوائی سفر کی بندش سے کروڑوں افراد دوسرے ممالک میں پھنس گئے تھے شاید پاکستان اس لحاظ سے واحد ملک تھا جس کے لاکھوں شہری اس صورتحال سے متاثر ہوئے‘ ان میں امریکہ‘ کینیڈا اور یورپ میں تو زیادہ تعداد دہری شہریت والوں کی تھی بلکہ ان میں سے جو خاندان پاکستان آئے ہوئے تھے ان کو بھی مذکورہ ممالک خصوصی پروازوں کے ذریعے واپس لے گئے تھے مگر پاکستان کے وہ شہری زیادہ متاثر ہوئے جو محنت مزدوری کیلئے مشرق وسطیٰ کی ریاستوں میں مقیم تھے ‘بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں جہاں لاکھوں پاکستانی کام بند اور پروازیں منسوخ ہونے سے پھنس گئے ہیں‘ عرب ریاستوں میں لاک ڈاﺅن عملاً کرفیو کی طرح نافذ ہے زیادہ تر پاکستانی کنسٹرکشن کے شعبے سے وابستہ ہیں جو کام بند ہونے سے عارضی رہائش گاہوں پر ہی مقید ہوگئے ہیں ان کی کمپنیاں بھی انہیںکام سے نکال چکی ہیں جبکہ اکثریت کے پاس پیسے بھی ختم ہوچکے ہیں جو بیمار ہیں ان کا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے‘ سوشل میڈیا کے ذریعے ان کی حالت زار کا پتہ چل رہا ہے وہ وطن واپس آنے کیلئے فریاد کر رہے ہیں لیکن حکومت کوئی واضح لائحہ عمل مرتب نہیں کر پا رہی‘ حد تو یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات نے غیر ملکیوں کو نکالنے کیلئے متعلقہ ممالک کو نوٹس بھی دیا اور واپسی کی ڈیڈ لائن بھی دی۔
دوسرے ممالک کا تو پتہ نہیں مگر ہماری حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی البتہ پی آئی اے نے یورپ وامریکہ کیلئے چند پروازیں ضرور چلائیں جن کا کرایہ دگنا وصول کیاگیا اور واپسی پر ان سمندر پار پاکستانیوںکو قرنطینہ کے نام پر مزید خوار کیاگیا ان سے قرنطینہ کیلئے ہوٹل میں زبردستی رکھنے کا کرایہ اور کھانے کا بل بھی وصول کیا گیا شاید یو اے ای اور سعودی عرب میں پھنسے مزدوردگنا کرایہ اور قرنطینہ بھتہ دینے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے اس لئے ان کی جانب توجہ نہیں دی گئی‘ سعودی عرب نے ازخود خصوصی پروازیں چلا کر ہزاروں پاکستانیوں کو واپس کیا لیکن ہماری حکومت کچھ نہ کر سکی‘ اب اعلان کیا گیا ہے کہ 10جون تک12ہزار ہم وطنوں کو یو اے ای اور سعودیہ سے واپس لایا جائے گا حالانکہ ایک لاکھ تیس ہزار آن لائن ٹکٹوں کی درخواستیں دی گئی ہیں ان پاکستانیوں کی جس طرح واپسی ضروری ہے اس سے زیادہ ان کے آجر اداروں اور افراد کے پاس پھنسے واجبات کی واپسی بھی ضروری ہے‘ اس سلسلے میںوزارت خارجہ متعلقہ ممالک میں سفارتخانوںاور کمیونٹی ویلفیئر آفیسرز کے ذریعے مقامی حکومتوں سے رابطہ کرے تب ہی مسئلہ حل ہوسکتا ہے‘ لاک ڈاﺅن کی آڑ میں ان ممالک میں اکثر کمپنیوں نے ایک طرف تو غیر ملکی کارکنوں کو فارغ کر دیا تو دوسری طرف ان کی واجب الادا تنخواہیں بھی روک لی ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ زیادہ مصیبت میں مبتلا ہیں۔
ان کے پاس کھانے کو بھی کچھ نہیں تو ٹکٹ کے پیسے کہاں سے دیں گے ان کے حالات کے پیش نظر حکومت ٹکٹوں میں رعایت دے اور پاکستان آکر بھی ان کو ضروری قرنطینہ یا علاج مفت فراہم کرے ‘یہ ان پاکستانیوں کا حق ہے جو اپنے خاندان سے دور رہ کر ملک کےلئے زرمبادلہ کمانے کا ذریعہ رہے ہیں‘ ان حالات میں بھی گزشتہ سال سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے2ارب ڈالر سے زائد رقم بھیجی گئی ایسے پاکستانیوں کی مشکل وقت میں خبرگیری اور ان کی باعزت واپسی ہمارا فرض ہے اگرچہ اس حوالے سے حکومتی اقدامات مایوس کن اور توہین آمیز ہیں لیکن وزیر خارجہ نے اب یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ سفارتخانوں کے ذریعے مشرق وسطیٰ کی ریاستوں میں پھنسے پاکستانیوں کو واپس لانے اور ان کے واجبات کی ادائیگی اور علاج معالجے کی سہولت دلانے کی کوشش کریں گے اگرچہ عرب ممالک سے ہمارا برادرانہ رشتہ ہے اور تعلقات بھی بہت اچھے ہیں لیکن کورونا وبا کے بعد ان کا رویہ غیر دوستانہ ہوگیا ہے اور وہاں مقیم پاکستانیوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے اس موقع پر ہماری حکومت نے بھی کمزوری اور سستی دکھائی ہے مگر اب بھی ان کی باعزت واپسی یقینی بنائی جائے تو زیادیتوں کا ازالہ ہو سکتا ہے۔