عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف)کی جانب سے چار سو یونٹ تک کے بجلی صارفین کو ریلیف دینے کی حکومتی تجویز مستر د کر دی گئی ہے۔ اب محض دو سو یونٹ تک کے صارفین کو یہ سہولت ملے گی کہ وہ بل کی قسطیں کر اسکیں اور بل جمع کرانے کی آخری تاریخ گزرنے کے باوجود انہیں جرمانہ نہیں کیا جائے گا۔ آئی ایم ایف کے اس ریلیف پلان سے محض 40لاکھ صارفین کو سہولت ملے گی ۔ صارفین کی وہ کثیر تعداد جو ماہانہ پانچ سو یونٹ تک بجلی استعمال کرتی ہے کسی بھی قسم کے ریلیف سے محروم رہے گی ۔ گو کہ حکومت بجلی صارفین کو ریلیف دینے سے پہلے ہی انکار کر چکی تھی مگر اب آئی ایم ایف کی جانب سے کورے جواب سے رہی سہی امید بھی ختم ہوگئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ درآمدی توانائی اور ناروا معاہدوں کے جس گرداب میں ہم پھنسے ہوئے ہیں اس کا نتیجہ شدید مہنگائی اور افلاس کی صورت میں برآمد ہونا نوشتہ دیوار ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے بھی ٹیکس وصولی کے نظام کو بہتر بنانے، براہ راست ٹیکس وصول کرنے اور ٹیکس چوری کو روکنے کے بھاری پتھر کو اٹھانے کے بجائے بالواسطہ ٹیکسوں کی مد میں محصولات بڑھانے کا جو آسان حربہ اختیار کیا اس میں توانائی کا شعبہ ایک اہم ہدف بنا مگر حکومت کے اس فیصلے نے جن خرابیوں کو جنم دیا وہ اس وقت ہمارے سامنے ہیں۔ وزیر توانائی کا کہنا ہے کہ سالانہ 589 ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے جب تک بجلی چوری ختم نہیں ہوتی بجلی کی قیمت کم نہیں ہوگی۔ سر بسر تسلیم مگر سوال یہ ہے کہ بجلی چوری روکنا کس کا کام ہے کیا یہ عوام یا بجلی صارفین کا کام ہے یا حکومت کا ؟ اس نا اہلی کی سزا بل ادا کرنے والے صارفین کو کیوں دی جارہی ہے۔ اس وقت ملک کی جو معاشی صورتحال ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ امریکی ادارے بلومبرگ کے مطابق ڈالر کی قلت سے خام مال کی درآمد متاثر ہونے کے سبب پاکستان میں ہزاروں فیکٹریاں بندش پر مجبور ہیں، پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں 40 روپے تک اضافے کے بعد 50 فیصد صنعتی یونٹس بند ہونے کا خدشہ ہے۔ ہزاروں صنعتی یونٹس بند ہونے سے لاکھوں افراد پہلے ہی بیروزگار ہو چکے ہیں جبکہ مہنگی توانائی اور صنعتوں کی بندش کے باعث مالی سال 2023 میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 10 فیصد سے زائد کمی واقع ہوئی ہے۔ 30 فیصد کے لگ بھگ مہنگائی کی شرح کی وجہ سے کم اور درمیانی آمدنی والے طبقے کے لئے روز مرہ کی ضروریات کا پورا کرنا ناممکن ہو چکا ہے اور توانائی کے بے تحاشا اضافی بوجھ نے عوام کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ حکومت بجلی صارفین کو کسی قسم کا ریلیف دینے کے بجائے ان سے ناروا ٹیکسز اور محکمانہ نا اہلیوں کا بوجھ ہی ہٹالے تو عوام کو کافی سہولت ہوگی۔ اس وقت صارفین استعمال شدہ بجلی کے ساتھ ساتھ اس بجلی کی ادائیگی کے بھی ذمہ دار ہیں جو چوری ہو جاتی ہے یا لائن لاسز کا شکار ہو جاتی ہے، ضروری ہے کہ عوام پر بالواسطہ اور ناروا ٹیکسز کا بوجھ ڈالنے کے بجائے بجلی کے شعبے کی خرابیاں دور اور بنیادیں درست کرنے کا کام کیا جائے۔ یہ کام زر مبادلہ کے کثیر ذخائر اور مالیاتی اداروں کی نظر التفات کا محتاج نہیں ہے۔ اس کےلئے صرف عزم صمیم کی ضرورت ہے۔ جب تک خسارے اور ضیاع کے شگاف پر نہیں کئے جاتے ٹیرف میں خواہ کتنا بھی اضافہ کر لیا جائے شعبہ بجلی کے خسارے کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ عوام کے مسائل اور مشکلات میں اضافہ ضرور ہوگا۔