طور خم سرحد کی بندش کے حوالے سے پاکستان نے واضح موقف اختیار کیا ہے کہ افغان فورسز کی جانب سے بلا اشتعال فائرنگ اور افغانستان کی جانب سے سرحد پر ممنوعہ علاقے میں چو کی تعمیر کرنے کی کوشش سے پیدا ہونے والی کشیدگی پاک افغان سرحد کی اس اہم اور مصروف ترین گزرگاہ کی بندش کا سبب بنی۔ طورخم سرحد کی بندش دونوں جانب سفر کرنے والے شہریوں اور مال بردار گاڑیوں کیلئے یقینا تکلیف کا باعث ہے مگر اس تکلیف کا ازالہ سرحد کی بندش کے اسباب کی تلافی سے ممکن ہے۔ پاکستان اور افغانستان قریب ترین ہمسائے ہیں اور ثقافتی ولسانی تعلق اور افغان باشندوں کیلئے پاکستان کے تاریخی ایثار کو دونوں ممالک کے بیچ تعلق کی مضبوط گرہ بننا چاہیے، مگر یہ تعلق مسلسل بے اعتمادی کا شکار ہے اور اس کے اسباب ڈھکے چھپے نہیں۔ یہ ایسا معاملہ ہے جس کی جانب پاکستان مسلسل کابل کی توجہ دلا تا آرہا ہے، مگر اس جانب سے تسلی بخش پیشرفت سامنے نہیں آئی۔ پاکستان میں دہشت گردی کے مرتکب عناصر کا افغانستان میں وجود نقل حرکت کی سہولتیں اور پاکستان کے خلاف افغان سرزمین کا استعمال ایسی تشویشناک صورتحال ہے جس سے صرف نظر ممکن نہیں۔ افغانستان میں نیٹو اور سابق افغان حکومتی فورسز کا چھوڑا ہوا اسلحہ بھی پاکستان کی سلامتی کیلئے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ اس حوالے سے پچھلے دنوں اقوام متحدہ نے بھی توجہ دلائی تھی پاکستانی اداروں کی جانب سے بھی اس تشویشناک صورتحال کی نشاندہی کی گئی ہے۔ گزشتہ دنوں دفتر خارجہ کی ترجمان نے بھی کہا تھا کہ افغانستان میں جدید ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگ گئے ہیں اور ان سے پاکستان کے سکیورٹی اداروں پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ اس
قسم کا تازہ ترین وقوعہ اگلے روز چترال کے علاقے میں پاک افغان سرحد پر پیش آیا۔ واقعات کے اعداد و شمار پر جائیں تو ان بہت سے دہشت گردی کے واقعات میں سے یہ ایک ہے جو حالیہ کچھ عرصے کے دوران افغانستان سے پاکستان کے خلاف وقوع پذیر ہوئے۔ یہ سلسلہ جو اگست 2021 میں طالبان کی کابل میں واپسی کے کچھ عرصہ بعد شروع ہو گیا، بتدریج بڑھتا چلا گیا ہے اور صورتحال کی سنگینی اس سطح کو جا پہنچی ہے کہ رواں سال اگست میں 2014 کے بعد دہشت گردی کے سب سے زیادہ واقعات ہوئے ۔ گزشتہ ماہ ملک میں دہشت گردی کے 99 واقعات رپورٹ ہوئے جو نومبر 2014 کے بعد کسی ایک ماہ کے دوران دہشت گردی کے سب سے زیادہ واقعات تھے۔ مجموعی طور پر رواں سال کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران بائیسں خود کش دھماکوں میں 227اموات ہو ئیں اور پانچ سو کے قریب افراد زخمی ہوئے۔ ان سبھی واقعات کے تانے بانے افغانستان میں ملتے ہیں اور پاکستان کی جانب سے اس صورتحال پر تشویش کے اظہار اور افغانستان کی عبوری حکومت کے سامنے معاملات اٹھائے جانے کے باوجود اس پر تسلی بخش پیشرفت نظر نہیں آتی ۔ یہ حالات پاکستان کے لیے باعث تشویش ہیں ہی ،خطے کے دیگر ممالک کیلئے بھی بڑا خطرہ ہیں؛ چنانچہ ضروری ہے کہ اس خطرے سے نمٹنے کیلئے خطے کی سطح کی مشترکہ حکمت عملی بنائی جائے۔ افغانستان کے استحکام کیلئے بھی یہی اپروچ کارگر ہوگی ۔ اس وقت ضروری ہے کہ معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے امن وامان کے ساتھ سیاسی استحکام پر بھی خصوصی توجہ دی جائے اورتاکہ ملک کی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے میں مدد ملے۔ یہ کام تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق اور یکجہتی کے ساتھ ہو جائے تو اس کے دور رس اثرات سامنے آئیں گے‘جہاں تک افغانستان کی صورتحال کا تعلق ہے تو افغان حکومت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بین الاقوامی معاہدات کی مکمل پاسداری کرے۔