سندھ ہماری زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے لئے زیادہ تر نہری پانی فراہم کرتا ہے ‘ ملک کے بیشتر بڑے شہر بھی دریائے سندھ کے چند درجن کلومیٹر کے اندر واقع ہیں‘ اس طرح طاقتور سندھ کو بجا طور پر پاکستان کے لئے لائف لائن قرار دیا گیا ہے‘ برفانی پسپائی کی خطرناک سطح کے ساتھ ساتھ، دریائے سندھ کے بالائی حصوں میں برفانی جھیلوں کے سیلاب کا آنا تیزی سے عام ہو گیا ہے‘ دوسری طرف نمکین پانی کی مداخلت اور ساحلی کٹاﺅ سے دریا کے نچلے حصے کو خطرہ لاحق ہے۔ دریائے سندھ اور اس کا ڈیلٹا جو بے پناہ حیاتیاتی تنوع کو برقرار رکھنے کے لئے ایک انمول مسکن فراہم کرتا ہے، پانی کے غیر ذمہ دارانہ استعمال اور آلودگی کی وجہ سے بھی شدید دباﺅ کا شکار ہے‘ میٹھے پانی کے ہمارے قیمتی ذرائع کو محفوظ کرنے کی اشد ضرورت کے باوجود سندھ زہریلے صنعتی فضلے، زرعی بہا ﺅاور پلاسٹک کے لئے ایک ڈمپنگ سائٹ بن گیا ہے‘اس طرح2022ءمیں شرم الشیخ (جسےCOP27کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) کے آخری موسمیاتی تنازعے پر پاکستان کی جانب سے Living Indus Initiative کا اعلان کرنا ایک خوش آئند علامت تھی‘ سمجھا جاتا ہے کہ اس اقدام کو سیلاب کی لچک کو بہتر بنانے اور اس کے ساتھ ساتھ دریا کے طاس کی ماحولیاتی صحت کو بحال کرنے کے لئے ایک وسیع کوشش سمجھا جاتا ہے‘ہماری حکومت کو لیونگ انڈس انیشیٹو کے لئے مستقل ڈونر سپورٹ کے ساتھ ساتھ نجی شعبے کی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی ضرورت ہے، جس کی لاگت کا تخمینہ 17 بلین ڈالر ہے‘ دریا سے آلودگی کو صاف کرنے اور مستقبل میں آلودگی سے بچنے کے لئے اقدامات کرنے کے لیے اتنے بڑے بجٹ کی ضرورت ہے‘ ملحقہ منصوبوں میں شہری جنگلات اور کمیونٹی تالابوں کی تخلیق کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی سیاحت کو فروغ دینا، آب و ہوا کےلئے لچکدار زراعت کو فعال کرنا اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات کو بہتر طریقے سے برداشت کرنے کےلئے سبز بنیادی ڈھانچے کا قیام شامل ہے‘پی ٹی آئی حکومت حساس ماحولیاتی نظام اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے اپنے ارادے کا مظاہرہ کرتے ہوئے قرضوں میں کچھ ریلیف حاصل کرنے کی امید کر رہی تھی‘ قرض کے بدلے فطرت کے تبادلے کے علاوہ سابق حکومت نے ضروری فنڈز پیدا کرنے کےلئے نیچر پرفارمنس بانڈز شروع کرنے کے منصوبوں کا بھی اعلان کیا تھا‘ یہ اطمینان بخش ہے کہ اقوام متحدہ کے نظام جیسی کثیر الجہتی ایجنسیوں نے کم از کم اس اقدام کی توثیق کی ہے‘پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت نے پانی کے تحفظ، سیلاب پر قابو پانے، خشک سالی سے نجات اور ماحولیاتی تحفظ پر تعاون حاصل کرنے کے لئے چین کے چانگ جیانگ آبی وسائل کمیشن کے ساتھ ایک معاہدے پر بھی دستخط کئے تھے‘ کہا جاتا ہے کہ یہ معاہدہ لیونگ انڈس انیشی ایٹو کے مقاصد سے بھی ہم آہنگ ہے۔پاکستان چینی تعاون سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور پانی کے معیار کو بہتر بنانے اور دریائے یانگسی کے طاس میں سیلاب کو کم کرنے کے اپنے تجربات سے سیکھ سکتا ہے۔ اس کے باوجود خود چین کے پاس پانی کے انتظام کا ریکارڈ قابل رشک ہے‘ حالیہ تخمینوں کے مطابق چین بھر میں تقریباً70 فیصد دریا اور جھیلوں کا پانی انسانی استعمال کے لئے غیر محفوظ ہے جبکہ چین نے حال ہی میں اندرون ملک ماحولیاتی مسائل پر زیادہ توجہ دینا شروع کی ہے، ماہرین ماحولیات کو خدشہ ہے کہ راوی کے قدرتی سیلابی میدانوں پر بلند و بالا عمارتوں اور شہری مراکز کی تعمیر سے تجاوزات بڑے سیلاب کی صورت میں تباہی کا باعث بن سکتے ہیں، اس کے علاوہ ماحولیاتی نقصان راوی کے سیلابی میدانوں میں نسلوں سے کھیتی باڑی کرنے والے گھرانوں کی بڑے پیمانے پر بے دخلی کی بھی اطلاع ملی ہے‘کسی کو امید ہے کہ وسیع تر لیونگ انڈس انیشی ایٹو بھی غیر معمولی اور قلیل مدتی تجارتی مجبوریوں کا شکار نہیں ہو گا جس سے نہ صرف دریائے سندھ کے نظام کی حفاظت بلکہ حیاتیاتی تنوع اور مقامی آبادیوں کے تحفظ کے اس کی عقلیت کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے جن پر انحصار بھی ہے۔