خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل(ایس آئی ایف سی) کے حالیہ اجلاس میں معاشی بحالی کے لائحہ عمل اور در پیش رکاوٹوں سے نمٹنے پر غور کیا گیا۔ خزانہ، صنعت اور اطلاعات کے نگران وفاقی وزراءنے اس حوالے سے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ممکنہ سرمایہ کاری کے تین اہم شعبے یعنی انفارمیشن ٹیکنالوجی، کان کنی اور زراعت اس اجلاس میں بطور خاص زیر بحث آئے جبکہ حکومتی اخراجات اور گردشی قرضوں پر قابو پانے کے اقدامات، نجکاری کےلئے پچھلی حکومت کے فیصلوں پر عمل درآمد ایف بی آر میں اصلاحات اور غیر ملکی سرمایہ کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے پر بھی بات چیت ہوئی‘ سرمایہ کاری اور خسارے میں چلنے والے سرکاری کاروباری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے اور ان کی نجکاری کے معاملے پر بھی غور کیا گیا۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل سول ملٹری مشتر کہ دلچسپی اور سر پرستی کا حامل فریم ورک ہے جس کا بنیادی مقصد غیر ملکی سرمایہ کاری کےلئے شفاف نظام یقینی بنانا ہے تا کہ ملک میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو‘ ایس آئی ایف جیسے اعلیٰ سطحی خصوصی بندوبست کی ضرورت ہمارے نظام کی ان خرابیوں کی نشاندہی کرتی ہے جو غیر ملکی سرمایہ کاری کو پاکستان میں درپیش ہیں ‘ اس سلسلے میں دفتری کام کا طریقہ کار اور ادارہ جاتی سطح پر تہ در تہ رکاوٹیں اور بدعنوانی سب سے بڑی رکاوٹ ہے جس کا سامنا کسی غیر ملکی سرمایہ کار کو اپنے فیصلے سے انحراف پر مجبور کر دیتا ہے؛ صرف غیر ملکی سرمایہ کاری تک محدود نہیں ملکی سرمایہ کاروں کےلئے بھی کچھ اسی قسم کی مشکلات ہیں، جن کی وجہ سے صنعتی منصوبوں کے بجائے ایسے غیر صنعتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کا رجحان بڑھ رہا ہے، جن میں بغیر کسی پیداواری کاوش کے سرمائے پر منافع حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے‘ ایسی سرمایہ کاری کی اہمیت اپنی جگہ مگر پاکستان جیسے کثیر نوجوان آبادی والے ممالک کےلئے نئے روزگار کے مواقع پیدا کرنا بذات خود ایک بنیادی ضرورت ہے‘چنانچہ صنعتی اور کمرشل منصوبوں میں سرمایہ کاری کا رجحان بڑھانے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں حائل رکاوٹیں دور کرنے اور سرمایہ کاروں کو احساس تحفظ فراہم کرنے کےلئے ایس آئی ایف جیسا بندوبست بڑی اہمیت کا حامل ہے‘ تاہم سرمایہ کاری کےلئے کشش اسی صورت پیدا ہو سکتی ہے جب ملک میں معاشی امکانات روشن ہوں اور منافع کی شرح کا امکان نسبتاً زیادہ ہو‘ عمومی تحفظ اور سہولیات کی یقین دہانی کے باوجود ابھی تک وطن عزیز سرمایہ کاری کےلئے معاشی تناظر میں یہ پرکشش عوامل یقینی بنانے میں اس خطے کے دیگر ممالک سے پیچھے ہے‘توانائی کی لاگت ہی کو دیکھ لیجئے ہمارے ہاں توانائی کا خرچ اس خطے کے دیگر ممالک کی نسبت زیادہ ہے اور فراہمی بے یقینی کا شکار رہتی ہے‘ چنانچہ اس زیادہ لاگت پر تیار ہونے والی مصنوعات کےلئے عالمی منڈیوں میں مسابقت کی اہلیت بھی کم ہوگی جس سے صنعت کار کا منافع بھی کم ہو گا‘ دوسری جانب ایسے شعبے جن کےلئے توانائی کی کھپت نسبتاً کم ہے مثال کے طور پر آئی ٹی ان کےلئے ہنر مند اور تعلیم یافتہ افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے‘ یہ ایسے مسائل ہیں جن پر توجہ دیئے بغیرمعاشی اہمیت کی حامل ان صنعتوں سے بھر پور فائدہ اٹھانا ممکن نہیں‘ایس آئی ایف سی کے حالیہ اجلاس میں صنعتوں کو ترجیح دینے اور برآمدات بڑھانے کے معقول اقدامات پر بھی غور کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ قومی سطح پر زر مبادلہ کی ضروریات جس قدر بڑھ چکی ہیں، ہمارے پاس برآمدات بڑھانے اور اس ذریعے سے زرمبادلہ کمانے کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ زرمبادلہ کی آمدنی کیلئے دوسرا بڑا ذریعہ سمندر پار پاکستانی کارکنوں کی ترسیلات زر ہیں، تاہم ملک میں توانائی کی مہنگائی اور زرمبادلہ کی بلیک مارکیٹنگ کی وجہ سے ملک برآمدات اور کارکنوں کی ترسیلات کی مد میں زرمبادلہ کی ایک اچھی خاصی رقم سے محروم ہورہا ہے۔ برآمدات کو دیکھ لیجئے ‘ پچھلے دس برس کے دوران 2022 کے ایک سال کے استثنا کے ساتھ پاکستانی بر آمدات 24 سے 25 ارب ڈالر کے لگ بھگ رہیں ۔