وطن عزیز میں جس تیزی کےساتھ امیر اور غریب کے درمیان خلیج دن بہ دن زیادہ ہوتی جا رہی ہے وہ اس بات کا عندیہ دے رہی ہے کہ شاید انقلاب خصوصاً خونی انقلاب کوئی زیادہ دور نہ ہو‘ خونی انقلاب کے نام سے بلکہ تصور سے ہی دانشور لرزنے لگتے ہیں کہ یہ پتا نہیں ہوتا اس کے ثمرات انقلابیوں کے حق میں اچھے بھی ثابت ہوں گے یا نہیں اکثر ایسا ہوا ہے کہ انقلاب کے رستے میں آنےوالی ہر شے کو انقلابی خس و خاشاک کی طرح بہا دیتے ہیں‘ ابتدائے آفرینش سے لے کر اب تک دنیا میں کئی انقلاب آئے ان میں بعض خونی انقلاب بھی تھے کہ جن میں انقلابیوں نے ہر وہ چیز تہس نہس کر دی جسے وہ اپنی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے جس طرح دریا یا سمندر میں آنےوالا سیلاب اپنے کنارے توڑ کر بہنے لگتا ہے پھر وہ یہ نہیں دیکھتا کہ راستے میں کون ہے بالکل اسی طرح جب انقلابی ایک لشکر کی شکل میں اپنے دشمنوں کو زیر کرنے نکلتے ہیں تو فرط جذبات میں وہ اندھے ہوئے ہوتے ہیں جس طرح آگ لگ جانے کی صورت میں سوکھی لکڑی کےساتھ گیلی لکڑی بھی جل جاتی ہے بالکل اسی طرح انقلابیوں کے ہاتھوں استحصالی طبقے نہیں مارے جاتے معصوم لوگ بھی مارے جاتے ہیں‘ عام لوگ بھی ان کے غیض و غضب کا نشانہ بن جاتے ہیں‘انقلاب فرانس کے دوران انقلابی استحصالی طبقے کو مارنے کیلئے سڑکوں پر نکل آئے تھے وہ جریکو نامی ایک شخص کو قتل کرنا چاہتے تھے کہ جو انقلابیوں کے نظریات کا حامی نہ تھا اتفاق سے راستے میں انقلابیوں کو ایک شخص مل گیا جو شاعر تھا اور اس کا نام بھی جریکو تھا اسے جب وہ قتل کرنے لگے تو وہ چلایاکہ خدارا مجھے پہچانو میں وہ نہیں ہوں جو استحصالی طبقہ کا فرد ہے اور جسے تم پکڑنے کےلئے نکلے ہو میں تو جریکو شاعر ہوں جو انقلاب کے گن گاتا آیا ہے۔
مجھے مغالطے میں نہ مارو انقلابیوں کے لشکر میں سے کسی نے آواز دی کہ خراب شاعری کرنے پر اسے بھی مار دیا جائے اور اس طرح وہ شاعر مفت میں انقلابیوں کے لشکر کے غصے کا نشانہ بن گیا‘دنیا کے جن ممالک کو قدرت نے بصیرت‘ دوراندیشی اور معاملہ فہمی سے لبریز حکمران عطا کئے ہیں انہوں نے اپنے ملکوں میں سوشل ویلفیئر کا نظام رائج کرکے انقلاب کا راستہ روک لیا ہے‘ناروے‘ سویڈن ‘ڈنمارک انگلستان اور کینیڈا یا چین وغیرہ میں چونکہ وہاں کے حکمرانوں نے زندگی کی بنیادی ضروریات کافی حد تک اپنے عوام کو فراہم کر دی ہیں وہاں اب امیر اور غریب میں اتنی زیادہ خلیج نہیں ہے کہ جتنی وطن عزیز یا بعض دوسرے ممالک میں پائی جاتی ہے لہٰذا اب یہ ممالک کم از کم خونی انقلاب کا شکار نہیں ہوسکتے ‘ان ممالک میں معدنیات سے حاصل ہونےوالی آمدنی بھی وہاں عام آدمی میں تقسیم کی جا رہی ہے‘خونی انقلاب کا اگر کوئی خطرہ کسی ملک کے سر پر منڈلا رہا ہے تو وہ ان ممالک پر منڈلا رہا ہے کہ جہاں معدودے چند افراد قومی دولت پر سانپ بن کر بیٹھ گئے ہیں جہاں ایک طرف لوگ بی ایم ڈبلیو میں سفر کرتے ہیں تو دوسری طرف لوگوں کو سائیکل بھی میسر نہیں جہاں ایک طرف تو لوگ ان گھروں میں رہائش پذیر ہیں کہ جن کی دیواروں اور واش روم میں بھی سنگ مرمر نصب ہے دوسری طرف کروڑوں لوگوں کے سر پراپنی چھت نہیں‘ جہاں ایک طرف تو غریب بھی بیماری کی حالت میں سسکیاں لے کر دم توڑ دیتے ہیں کہ ادویات کے پیسے ان کی جیب میں نہیں ہیں تو دوسری طرف لوگ پیچش کا علاج کرانے بھی لندن جاتے ہیں‘جہاں ایک طرف غریب بچے سائیکلوں کی دکان پر پنکچرلگاکر اپنے لئے روٹی پیدا کرتے ہیں اور دوسری طرف امیروں کے بچے ان سکولوں میں پڑھتے ہیں کہ جن کی ماہانہ فیس لاکھوں روپوں میں ہوتی ہے ۔سرمایہ داروں کو اس دن سے ڈرنا چاہئے کہ جب غریب کا ہاتھ ہوگا اور انکا گریبان۔