عام آدمی کااتنابھی قصورنہیں

 جس طرح اشتہارات کے ذریعے ایک ہی خوراک سے پیچیدہ بیماریوں کے علاج کے دعوﺅں نے لوگوں سے ان بیماریوں کا خوف ختم کر دیا اور کوئی معمولات زندگی بدلنے کو تیار نہیںہوتا کیونکہ سوچ میں کہیں نہ کہیں ان دیواری اشتہارات کا یقین موجود ہوتا ہے اسی طرح کورونا وائرس سے لوگوں کو بے خوف کرنے اور احتیاط کا دامن چھوڑنے پر کچھ حکیموں اور ڈاکٹروں کا بھی ہاتھ ہے‘ ایک طرف تو حکومت کے ڈھیلے اقدامات سے عام شہریوں کا ویسے ہی یقین ڈانواں ڈول ہے اور غیرسنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ کورونا کے مریضوں میں تیزی سے ہونےوالے اضافے کو بھی عالمی ادارہ صحت سے فنڈ لینے کی حکومتی سازش سمجھا جا رہا ہے‘عام بیماریوں سے مرنے والوں کی موت کورونا کی وجہ دکھانے کی افواہیں بھی زوروں پر ہیں جن کی وجہ سے کوئی احتیاط برتنے کو تیار نہیں اور مریضوں کے لواحقین ہسپتالوں میں ڈاکٹروں سے جھگڑے کرتے ہیں اس پس منظر میں خودکو ڈاکٹر کہنے والے بھی اگر میڈیا کے ذریعے ایسے پیغامات پھیلانا شروع کردیں کہ یہ ایک معمولی وائرس ہے جو چند عام قسم کی سبزیاں یا مصالحہ جات استعمال کرنے سے ختم ہوجاتا ہے تو کون ہوگا جو ضروری احتیاطی تدابیر کو اپنائے گا‘اوپر سے تاجر دکانیں کھولنے کا وقت بڑھانے کا مطالبہ کر رہے ہیں‘پرائیویٹ سکول کھولنے کو پر تولے جا رہے ہیں حالانکہ عام حالات میں بھی جون جولائی میں سکول بند ہوتے ہیں اور اب شادی ہال اور مارکیٹ مالکان بھی احتجاج کر رہے ہیں کہ اجتماع منعقد کرنے کی اجازت دی جائے۔

‘اس طرح کے حالات میں عام آدمی کو کیسے قصوروار قرار دیا جا سکتا ہے کہ وہ احتیاط نہیںکرتا‘ اس آزادی کی ترغیب اس کو کس نے دی ہے؟کیا یہ ممکن ہے کہ کسی شخص کوکہا جائے کہ تم دریا میں اتر جاﺅ لیکن احتیاط کےساتھ کہ تمہارا بدن گیلا نہ ہونے پائے‘حکومتی ہدایات اس قسم کی ہیں‘ اب سخت حکم آگیا ہے کہ لاک ڈاﺅن میں نرمی توکی جارہی ہے لیکن کوئی گھر سے باہر نہ نکلے اور اگر نکلتا ہو تو ماسک ضرور پہنے حالانکہ یہ تو پہلے دن سے ہی ہدایات تھیں اور لوگ عمل بھی کر رہے تھے‘ ان کو اگر ان احتیاطی تدابیر سے آزاد نہ کیا جاتا تو شاےد کسی حد تک خوف موجود رہتا اور صرف مجبوری کی حالت میں ہی باہر نکلا جاتا‘ اتوار کے دن قومی رابطہ کمیٹی کا خصوصی اجلاس بلایا گیا اور لاک ڈاﺅن نرم کرنے کی منظوری بھی دی گئی ‘ایک طرف یہ صورتحال تو دوسری طرف گزشتہ چار دن میں 10 ہزار مریض سامنے آئے‘ اب اموات کی تعداد اور شرح بھی بڑھنے لگی ہے‘ یہ ایک بہت خطرناک صورتحال ہے کورونا سے متاثرہ مریض کو دوسرے لوگوں سے الگ رکھنا ضروری ہوتا ہے اگرچہ کسی سرکاری قرنطینہ مرکز میں جانے سے زیادہ بہتر ہے کہ گھر پر ہی بالکل الگ سے رہا جائے کوئی خاص دوائی تو آئی نہیں بخار کم کرنے کی گولی اور سانس بحال کرنے کےلئے بھاپ وغیرہ لی جائے مگر پاکستان میں کتنے لوگوں کے گھر ایسے ہیں۔

 جہاں ایک اچھوت قسم کے مریض کو بالکل علیحدہ رکھا جا سکے‘ جہاں کوئی فرد اس سے مل سکے ‘ نہ قریب جا سکے اور جب سوشل میڈیا پر کوئی ڈاکٹر یہ بھی بتائے کہ دس دن کے بعد کورونا وائرس کسی مریض سے دوسرے صحت مند شخص کو منتقل نہیں ہوتا‘ دوسرا ڈاکٹر یہ کہے کہ یہ وائرس ختم بھی ہو جائے تب بھی لیبارٹری ٹیسٹ میں مثبت آ سکتا ہے ‘اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ‘ تیسرے صاحب یہ گارنٹی دیں کہ پیاز کا ایک درمیانہ سا بوٹا کھانے سے وائرس ختم ہو جاتا ہے تو پھرکیسے اس کاپھیلاﺅ روکا جا سکتا ہے‘ پہلے تومذاق میں کسی کی ویڈیو وائرل ہوتی تھی کہ افیم کا ڈوڈا لینے سے کورونا ختم ہو جاتا ہے تو یہ نظر آتا تھا کہ بات سنجیدہ نہیں مگر جب باقاعدہ ایک بین الاقوامی سطح پر معروف شخصیات یہی بات میڈیا پر کرےں تو عام شہری یقین کرنے پر مجبور ہوگا اس لئے ایک طرف تو حکومت کھلی چھٹی دے رہی ہے کہ اب باہر نکلنا شروع کر دیں‘سیاسی جماعتوں نے سرگرمیاں شروع کر نے کا اعلان کردیا ہے تو عام آدمی اس سے کیا نتیجہ اخذ کرسکتا ہے جی ہاں یہی کہ اب کورونا کا خطرہ کم ہو رہا ہے‘کورونا کو آسانی سے شکست دی جا سکتی ہے اسلئے اب گھبرانے کی ضرورت نہیں تو اس میں اس کا کیا قصور ہے۔