نفرت کی سیاست

 سیاست میں انتخاب جیتنے کےلئے سب جائز سمجھا جاتا ہے جھوٹ بولنا تو گویا ایک اضافی خوبی سمجھی جاتی ہے لیکن نفرت اور تعصب کا بیج بو کر جس نے جہاں بھی سیاست کھیلی اس کا پھل ضرور کھانا پڑا ہے بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے بی جے پی نے ہمیشہ مذہبی اور نفرت کو انتخابی ہتھیار بنایا مگر مودی نے اس زہر کودوآتشہ کرکے بھارت میں پھیلایا نہ صرف مسلمانوں کے خلاف نفرت کو اُبھارا بلکہ پاکستان کے خلاف بھی معاندانہ اور جارحانہ رویہ اپنایا اس نے ہندﺅں کو مشتعل کرکے ووٹ تو حاصل کر لئے مگر اب یہ آگ نہ صرف بھارت کو جلا رہی ہے بلکہ چین اور نیپال سمیت دیگر ہمسایوں کےساتھ بھی تخریبی شرارت اور سرحدی خلاف وزیاں اس کے سرآگئی ہیں بھارت کا تو خیر ہمیں تجربہ ہے لیکن دنیا ہمیشہ اس کی طرف سے آنکھیں بند ہی رکھتی رہی مگر اب دنیا کی بڑ ی طاقت اور آئینی بالا دستی اور مذہبی یا نسلی تعصب سے پاک سمجھے جانے والے امریکہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی اتفاقی نہیں بلکہ صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران سفید فام اکثریت کے ووٹ حاصل کرنے کےلئے جس نفرت اور تعصب کا بیج بویاتھا وہ اب پھل دے رہا ہے ‘ریاستی پولیس کے ہاتھوں ایک سیاہ فام شہر ی کے دانستہ قتل کےخلاف احتجاج اب پورے امریکہ میں پھیل گیا ہے 40 شہروں میں کرفیو نافذ ہے مختلف مقامات پر فوج تعینات ہے گزشتہ روز صدر ٹرمپ کو مظاہرین کے خوف اور پولیس کی طرف سے آنسو گیس سے بچنے کےلئے بنکر میں چھپنا پڑا وہ اب بھی ریاستی گورنروں کو مظاہرین کے خلاف ایکشن لینے پر اکسا رہے ہیں۔

 لیکن شاید ریاستی طاقت سے یہ احتجاج روکنے کی کوشش ناکام ہو گئی کیونکہ امریکہ کے سیاہ فام شہری یہ سجھ چکے ہیں کہ صدر کی سرپرستی میں پولیس اور ادارے ان کےخلاف تعصب کا شکار ہیں اس لئے وہ بھی اپنی اہمیت اور آئینی مساوات کےلئے طاقت کو استعمال کرنے پر مجبور ہیں ویسے تو صدرٹرمپ کا دور امریکیوں کےلئے ایک بھیانک خواب بن چکا ہے آئندہ نومبر میں ہونے والے انتخابات میں ایک بار پھر جیتنے کےلئے صدر ٹرمپ نے ایک نیا راستہ ڈھونڈ ا تھا وہ یہ کہ مشرق وسطی کے جنگ زدہ ممالک اور افغانستان سے اپنی فوج نکال کر امریکیوں کو خوش کرلے گا اس مقصد کےلئے عسکری قیادت اور قومی سلامتی کے اداروں کی مخالفت کے باوجود شام سے فوج نکال لی اور افغان طالبان کےساتھ براہ راست مذاکرات کرکے امن معاہدہ بھی کر لیا ان اقدامات سے کسی حد تک ٹرمپ کے حق میں فضا بہتر ہو گئی تھی کیونکہ عام امریکی دوسرے ممالک میں مداخلت اور بھاری اخراجات کے خلاف ہیں لیکن شاید اب قدرت کو بھی امریکیوں پر رحم آ گیا اور ٹرمپ کے دوبارہ انتخابات کو ناممکن بنانے اور اس سے دنیا کی جان چھڑانے کےلئے ماحول بننا شروع ہو گیا ۔

ایک تو نوول کورونا کے خلاف بدحواسیوں اور موثر اقدامات میں ناکامی اور ایک لاکھ سے زیادہ امریکیوں کی نا گہانی موت نے ٹرمپ کو غیر مقبول کیا اس سے نہ صرف شہری عدم تحفظ کا شکار ہوئے بلکہ امریکی معیشت بھی تباہ ہوگی ان حالات میں ایک پولیس آفیسر کی طرف سے سیاہ فام شہر ی کے نفرت انگیز قتل نے گویا جلتی پر تیل کا کام کیا اب صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف سیاہ فام پر تشدد مظاہرے کر رہے ہیں تو دوسری طرف پولیس اور فوج ان کےخلاف کاروائی میں مصروف ہے۔ جلاﺅ گھیراﺅ کا سلسلہ امریکہ بھر میں پھیل چکا ہے لیکن جو شخص صدر ٹرمپ اس آگ کو بجھاسکتے ہیں وہ خوداس آگ کو ایندھن مہیا کرنے والے ہیں جو کچھ وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران اور بعد میںاحکامات کے ذریعے کہتے اور کرتے رہے وہ ان پر قائم ہیں اور دنیا میں مذہبی اور نسلی رواداری کے چمپئن اور انسانی حقوق کے علمبردار ملک میں ایک ایسی آگ بھڑک رہی ہے جس کو ایک عاقبت نا اندیش سیاستدان نے اپنا انتخاب جیتنے کے لئے سلگائی تھی اس سے شاید اب دنیا یہ بھی سمجھ سکے گی کہ بھارت میں نفرت اور تعصب کے پیچھے کون سا جذبہ کارفرما ہے لیکن یہ سمجھنے کےلئے دنیا کو بھی تعصب کی عینک اتارنی ہو گی ۔