احتساب کی حکمت عملی

 شہری علاقوں میں ان دیکھا کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے‘ ہر آنے والے دن مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے‘ اسی کے متوازی ملک کے دیہی اور زرعی اہمیت کے علاقوں میں ٹڈی دل حملہ آور ہے‘گزشتہ سال دسمبر میں آنے والی ٹڈی دل نے نئی نسل کی افزائش بھی کرلی ہے‘ ابھی حکومتی اقدامات مشاورت کے مراحل میں ہیں جبکہ تباہ کن مکڑی اپنا کام تیزی سے پھیلا رہی ہے‘ کورونا کے باعث پیداواری سرگرمیاں کم ہونے سے معاشی نقصان کا اندیشہ ہے تو ٹڈی دل کی وجہ سے مستقبل میں غذائی قلت کا خطرہ لاحق ہے‘ اس دوآتشہ بحران سے حکومت قطعی طور پر بے نیاز نظر آتی ہے اور اس وقت بھی قومی اتفاق رائے یا مشترکہ حکمت عملی کی سوچ کا فقدان ہے جبکہ اپوزیشن رہنماﺅں پر نئے مقدمات بنانے اور گرفتار کرنے کا کام تیز ہو رہا ہے‘ گزشتہ روز لاہور میں مسلم لیگ ن کے صدر اورقومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کی گرفتاری کیلئے 8 مقامات پر چھاپے مارے گئے‘شہباز شریف پر وسائل سے زائد اثاثے بنانے اور منی لانڈرنگ سمیت کئی مقدمات زیر سماعت ہیں‘ وہ گرفتار بھی رہے اور ضمانت لیکر نوازشریف کیساتھ لندن چلے گئے تھے‘ پھر اچانک لاک ڈاﺅن کے باعث پروازوں کی بندش سے پہلے واپس آگئے تھے‘ وسط مارچ سے اب تک وہ اپنے گھر میں ازخود قرنطینہ میں ہیں‘ وہ کسی پارٹی میٹنگ‘ عدالتی پیشی یا قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی شریک نہیں ہوئے‘ ۔

بہر حال اب ایک طرف نیب ان کو گرفتار کرنا چاہ رہی ہے تو دوسری طرف وہ اس گرفتاری سے بچنے کیلئے ہر طرح کی کوشش کررہے ہیں‘ ایک ایسے موقع پر جبکہ حکومت کو بجٹ کی منظوری اور چند ضروری قوانین کی منظوری کیلئے اپوزیشن کے تعاون کی ضرورت ہے‘ طویل مدت سے زیرسماعت مقدمات میں گرفتاری کیلئے عجلت کا مظاہرہ سمجھ سے بالا ہے‘ بادی النظر میں دیکھا جائے تو شہبازشریف ایک مصلحت پسندلیڈر اور اداروں سے تعاون کرنےوالے سیاستدان ہیں‘ وہ نیب کیساتھ بھی شامل تفتیش رہے ہیں‘ ان کی گرفتاری کیلئے غلط وقت پر کوشش کرنا ایک غیر سنجیدہ عمل ہے‘ اب وہ گرفتار ہوتے ہیں یا نہیں‘ اس سے قطع نظر یہ طے ہے کہ دو دن بعد شروع ہونیوالے قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس میں حکومت کو اپوزیشن کی طرف سے سخت رویے کا سامنا ہوگا‘ یہاں یہ بات بھی دیکھنے کی ہے کہ نیب کی حرکت پذیری اور گرفتاری کی کوشش سے حکومت بری الذمہ نہیں ہوسکتی‘ کیونکہ حکومتی وزراءرمضان سے ہی یہ پیشگوئی کررہے ہیں کہ عید کے بعد جھاوڑ پھرے گا اور شہباز شریف کو مزید مہلت نہیں ملے گی‘ اگر نیب ایک آزاد ادارہ ہے اور حکومت کا اس پر کوئی دباﺅ یا کنٹرول نہیں تو وفاقی وزراءکو کیسے ان اقدامات کا پتہ چل جاتا ہے؟ اور اگر یہ محض اتفاق ہے تو کیا وزراءکو اس قسم کے بیانات کے اثرات کا اندازہ نہیں کہ وہ اپنی شوق گفتار میں احتساب کے سارے نظام کو مشکوک بنا رہے ہیں۔

 جن سابق حکمرانوں کےخلاف کرپشن کے ٹھوس ثبوت ہیں ان کو بھی ایسے بیانات سے فائدہ پہنچ رہا ہے اور وہ مظلوم بن رہے ہیں‘ وزیر اعظم کو اپنی کابینہ کی طرف سے کوئی سیاسی یا انتظامی فائدہ تو نہیں مل رہا‘ حکومتی رٹ کا یہ عالم ہے کہ چینی بحران کی انکوائری رپورٹ منظر عام پر آنے کے باوجود چینی کی قیمت کم نہیں ہوسکی اور عوام کو 90روپے کلو مل رہی ہے‘ پٹرول کی قیمت میں 35 فیصد تک کمی کے باوجود عوام کو کسی چیز میں کمی کا فائدہ نہیں مل سکا جبکہ غیرضروری بیان بازی سے وزراءہی وزیراعظم کو مشکل میں ڈال رہے ہیں‘زمینی حقیقت یہ ہے کہ کئی کئی ماہ زیر حراست رکھنے کے باوجود نیب کسی سابق حکمران کےخلاف چالان بھی تیار نہیں کرسکا اور عدالتیں ضمانت دینے پر مجبور ہیں‘جو ثبوت پریس کانفرنس میں دکھائے جاتے ہیں وہ عدالتوں میں کیوں پیش نہیں کئے جاتے اور اگر ان کو عدالتیں تسلیم نہیں کرتیں توپھر اس سارے خرابے کا مقصد کیا ہے‘ بے لاگ احتساب ایک متفقہ مطالبہ ہے لیکن ہر حکومت اس کو سیاسی بنا کر کرپشن کو فروغ دے رہی ہے۔