بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کے بارے میں اب کوئی شک نہیں رہ گیا کہ وہ ایک ہندو انتہاپسند جماعت ہے اور مسلمانوں سے دشمنی اس کی سیاست کا منشور ہے‘ یہ بہت پرانا طریقہ رہا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران یا ملک کے اندرونی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان پر دراندازی کے الزامات اور سرحدوں پر کشیدگی بڑھا دی جاتی ہے‘اسوقت بھارت تاریخ کے بدترین داخلی‘معاشی‘ انتظامی اور دفاعی بحرانوں کا شکار ہے اسکا کسی اور طریقے سے تو حل نظر نہیں آتا اسلئے مظلوم کشمیریوں پر ظلم مزید بڑھا دیا ہے10ماہ سے سخت ترین پابندیوں میں محصورکشمیری اسوقت بھارتی فوج کی طرف سے نسل کشی کا ہدف ہیں ان غیرانسانی مظالم سے دنیا کی توجہ ہٹانے کیلئے حسب معمول لائن آف کنٹرول پر گولہ باری اور سرحدی خلاف ورزیاں بڑھانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے‘بھارت کی سیاسی اور عسکری قیادت کا پاکستان پر باربار ایک ہی طرح کے الزامات اور فوجی کاروائی کی دھمکیاں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ بھارت ایک بار پھر عوامی دباﺅ اور داخلی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے کوئی جارحانہ مہم جوئی کرسکتا ہے‘ اگرچہ اسوقت بھارت اپنے ہمسایہ ممالک کےساتھ سرحدی تنازعات کے باعث ایک جارح ریاست کی حیثیت سے بدنام ہے ایک طرف لداخ کی چوٹیوں پر چین کے ہاتھوں تذلیل اور کئی کلومیٹر بھارتی علاقے میں چینی فوج کے قبضے سے حکومت‘فوج اور انٹیلی جنس ادارے عوام کے آگے شرمندہ ہیں ۔
تو دوسری طرف نیپال جےسے چھوٹے ملک کی طرف سے پوری شدت کےساتھ سرحدی تنازعات اٹھانے پر پریشان ہیں اب نہ تو بھارت چین سے طاقت کے زور پر اپنی اراضی واپس لے سکتا ہے اور نہ ہی نیپال کےخلاف طاقت استعمال کرسکتا ہے‘ فوج کسی بھی ملک کی ہو وہ ہر قسم کے حالات میں اپنے ملک کی حفاظت کرتی ہے اور اگر کسی حکومتی پالیسی سے فوج کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے تو اس سے فوج میں مایوسی پھیلتی ہے‘ چین اور نیپال کےساتھ حزیمت آمیز خاموشی پر بھارتی فوج میں سخت بددلی پھیلی ہوئی ہے اسلئے بھی یہ خطرہ ہے کہ پاکستان کےخلاف یا آزاد کشمیر میں کوئی مہم جوئی کرکے بھارت اپنی فوج اور عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر سکتا ہے کہ اس کی فوج اتنی بھی ناکارہ نہیں‘اگرچہ پاکستان کی مسلح افواج لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باﺅنڈری پر چوکس اور بھارت کا انتظار کر رہی ہےں ہماری انٹیلی جنس ایجنسی دشمن کی نقل وحرکت اور منصوبہ بندی پر پوری طرح نگاہ رکھے ہوئے ہے اور ہر ممکنہ جارحیت کے تدارک کیلئے مستعد ہے مگر ایک امن پسند ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان کی اب بھی کوشش ہے کہ دنیا بھارت کے عزائم سے آگاہ ہے اور اس کو کسی شرارت سے بازرکھے ورنہ حالات کنٹرول سے باہر ہو جائیں گے۔
گزشتہ روز وزیراعظم نے آئی ایس آئی ہیڈکوارٹر کا دورہ کیا اسی دوران عسکری ادارہ تعلقات عامہ کے سربراہ نے ایک انٹرویو میں بھارت کو خبردار کیا ہے کہ وہ آگ سے نہ کھیلے‘کسی قسم کی فوجی کاروائی کے نتائج کنٹرول سے باہر ہو سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ خطرہ موجود ہے کہ بھارت جس طرح کے بحرانوں میں اور داخلی انتشار میں مبتلا ہے اس سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے جارحیت کر سکتا ہے‘سرحدی کشیدگی کےساتھ سفارتی تناﺅ کی بھی بھارت نے ابتدا کردی ہے‘نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے دو ملازمین کو پہلے گرفتار کیا اور پھر ان کو ملک چھوڑنے کا کہہ کر بھارت نے اپنے خبث باطن کو ظاہر کیا ہے‘ان حالات میں ہماری فوج نے زیادہ چوکس ہوکر سرحدوں کی نگرانی شروع کردی ہے‘اگلے مورچوں پر موجود فوجیوں کی حوصلہ افزائی کیلئے آرمی چیف نے عید بھی ان کےساتھ ہی گزاری تھی اگرچہ ہمیں یقین ہے کہ جس طرح بھارت کو دراندازی کا جواب ملا تھا اب اس سے زیادہ سخت جواب دینے کی صلاحیت اور جذبہ موجود ہے لیکن حکومت کی کوشش ہے کہ دنیا اس صورتحال کو سمجھے اور بھارت کسی جارحیت سے باز رہے۔