ہمیں حکومت پر اعتماد ہے اگر وہ کہتی ہے کہ ملک میں گندم اور پٹرول کی کوئی کمی نہیں تو یہ بات درست ہوگی‘ وہ یہ بھی کہتی ہے کہ آٹے اور پٹرول کا بحران مصنوعی ہے یہ بھی درست ہوگا لیکن اس طرح کی سچ بیانی سے عام آدمی کو کیافائدہ ہو سکتا ہے‘ آٹے کا بحران اس قدر بڑھ چکا ہے کہ کم وزن روٹی کی قیمت بھی 25 روپے ہوگئی ہے‘ فلور ملز بند ہیں اورعدالت کو اس کا نوٹس لینا پڑا‘ یہ درست ہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا میں گندم کی پیداوار ضرورت سے کم ہوتی ہے باقی پنجاب سے خریدی جاتی ہے‘ عام حالات میں صوبوں کی سرکاری خریداری مکمل ہونے اور بین الصوبائی برآمد کا معاہدہ ہونے سے پہلے ہی مل مالکان زمینداروں اور نجی سوداگروں سے گندم خرید کر آٹا تیار کرنا شروع کر دیتے تھے جس کی وجہ سے آٹے کی ترسیل میں کمی نہیں آتی تھی اسی دوران پنجاب سے سرکاری گندم کی د رآمد سے کام چلتا رہتا تھا مگراس سال پنجاب حکومت کے محکمہ زرعی پیداوار نے سرکاری خریداری مکمل ہونے سے پہلے گندم کی صوبے سے باہر نکاسی پر پابندی لگادی ہے‘ مختلف داخلی پوائنٹس پر ہزاروں بوریاں ضبط کرلی گئیں اور دو ماہ میں پنجاب سے گندم کی درآمد نہ ہونے سے آٹے کا بحران پیدا ہونا فطری امر تھا مگر حکومتوں کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ آنےوالے حالات کا پیشگی ادراک کرکے اس کا تدارک کرلیں۔
حالانکہ پنجاب میں نئے آنےوالے صوبائی وزیر زراعت علیم خان نے چارج سنبھالتے ہی اعلان کر دیا تھا کہ صوبے سے گندم باہر نہیں لے جانے دیں گے ‘اسوقت پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ایک ہی پارٹی تحریک انصاف کی حکومتیں ہیں اسلئے باہمی روابط اور تعلقات کار میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں ہے بلکہ تعاون اور ایک دوسرے کی مشکلات میں مدد کرنے کا جذبہ بھی موجودہے پھر کسی شکایت کی صورت میں وزیراعظم بھی موجود ہیں اسلئے یہ بات ہی سمجھ سے بالاتر ہے کہ پنجاب نے صوبائی سرحد پر ناکہ بندی کر رکھی ہے اور دو ماہ سے گندم خیبرپختونخوا میں نہیں آسکی‘ حد تو یہ ہے کہ ملک میں گندم کی کوئی قلت نہیں جبکہ خیبرپختونخوا بھی اسی ملک کا ایک حصہ ہے‘ایسی صورتحال تو ماضی میں بھی نہیں آئی تھی جب پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی‘ یہ ایک طے شدہ طریقہ کار ہے اور معمول کے مطابق گندم کی خریدوفروخت اور ترسیل جاری رہتی ہے مگر اس بارپتہ نہیں کیا ہوگیا کہ صوبوں کے درمیان دیوار کھڑی ہوگئی اور کے پی کے جن مل مالکان نے گندم خریدی ہوئی ہے وہ بھی نہیں لا سکتے اور کورونا لاک ڈاﺅن سے بے حال عوام تین گنا قیمت پر روٹی خریدنے پر مجبور ہیں۔
جہاں تک پٹرول اور ڈیزل کے بحران کا تعلق ہے تو یہ بھی ایک سمجھ نہ آنےوالا معمہ ہے‘حکومت کے پاس وزارت تیل و گیس میں پٹرولیم ڈویژن کا کام ہی ملک میں ضرورت کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کی کھپت اور سٹاک کی خبر رکھنا ہے اس حوالے سے آئل ریفائنریز اور مارکیٹنگ کمپنیوں کو 20 دن کا لازمی سٹاک رکھنا ہوتا ہے اب پٹرولیم ڈویژن کا کہنا ہے کہ ملک میں ضرورت کے مطابق پٹرول کا ذخیرہ موجود ہے مگر کیا وجہ ہے کہ 6نجی کمپنیاں فلنگ سٹیشنوں پر سپلائی نہیں کر رہیں صرف سرکاری کمپنی پی ایس او ہی سپلائی کر رہی ہے‘ مارکیٹنگ کمپنیوں کی طلب و رسد اور قیمت پر نظر رکھنے کیلئے اوگرا موجود ہے مگر سب ہی بے بس تماشائی بنے ہوئے ہیں ان کے پاس عوام کی تسلی کیلئے یہی کافی ہے کہ ملک میں تیل کی کوئی کمی نہیں اور حالیہ بحران مصنوعی ہے‘ یہ ذمہ داری کوئی لینے کو تیار نہیں کہ مصنوعی بحران روکنا کس کا کام ہے‘ صورتحال یہ ہے کہ دنیا میں تیل مفت ہونے کی حد تک سستا ہوچکا ہے اور ملکی سطح پر بھی 35 فیصد تک قیمت کم ہے مگر عوام دگنی قیمت پر خریدنے پر مجبور ہیں اور یہ کام مخصوص کمپنیاں کر رہی ہیں‘ حکومت کو یہ بھی پتہ ہے کہ یہ خود ساختہ بحران ہے مگر پھر بھی بحران جاری ہے اور یہ بھی دعویٰ ہے کہ حکومت اپنا کام بہتر طریقے سے کر رہی ہے اس پر کیا کہا جاسکتا ہے؟۔