بلاشبہ دنیا میںآہستہ آہستہ لاک ڈاﺅن کھل رہا ہے زندگی معمول کی طرف آ رہی ہے اور اعداد و شمار یہ بھی بتا رہے ہیں کہ کورونا کا زور ٹوٹ رہا ہے مریضوں اور کورونا سے ہلاکتوں کے لحاظ سے امریکہ پہلے نمبر پر رہا ہے لیکن وہاں دوہفتے پہلے پولیس کے ہاتھوں ایک سیاہ فام شہری کے قتل کے خلاف ہونےوالے احتجاج اور لو ٹ مار نے لوگوں کو احتیاطی اور حفاظتی تدابیر بھی بھلادی ہیں‘ حکومت مکمل بے بس ہو چکی ہے اور کہنے کو مہذب اور پڑھے لکھے معاشرے کے شہری اپنے شعور کی پستی کا مظاہرہ کر رہے ہیں‘بظاہر نسلی تعصب کےخلاف ہونےوالے مظاہروں مےں امریکی سماج کی اخلاقی گراوٹ سر عام دیکھی جا رہی ہے اگر واقعی امریکہ میں کورونا وائرس موجود ہے تو آئندہ دنوں میںاس کی لہر آئے گی ‘جس طرح ہم نے عید شاپنگ کےلئے احتیاط کا دامن چھوڑا تھا اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم ایشیا میں مریضوں کی روزانہ بڑھتی تعداد میں پہلے نمبر پر ہیں ‘ اسی طرح امریکہ کے حالیہ مظاہروں اور شاپنگ مالز کی لوٹ مار کا بھی نتیجہ ضرور نکلے گا خیر یہ تو درمیان میں بات آ گئی ‘ موضوع یہ ہے کہ دنیا میں اگر لاک ڈاﺅن نرم ہو رہا ہے۔
تو اس کی مثال ہم پر صادق نہیں آتی یہ وہ ممالک ہیںجنہوں نے اجتماعی کوششوں سے کورونا پر قابو پا لیا ہے جبکہ ہم اس میں ناکام رہے ہیں‘ اب یہ بحث فضول ہے کہ یہاں تک نوبت پہنچنے میں زیادہ قصور کس کا ہے حکومت کا یا عوام کا‘ سچی بات تو یہ ہے کہ دونوں طرف سے غیر ذمہ داری اور لاپرواہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی اور اب شاید ہی کوئی گھر ایسا بچا ہو‘ جہاں یہ وائرس نہ پہنچا ہو ‘یہ الگ بات ہے کہ غریب اور سخت جان عوام اس کو مات دے چکے ہیں جبکہ نازک اور اندرونی طور پر کمزور اشرافیہ اس کا اثر قبول کر رہی ہے ‘کورونا وائرس اپنی جگہ ایک مصیبت ہے مگر ہماراالمیہ یہ ہے کہ ڈاکٹر عوام کا ہسپتالوں پر اعتماد بھی بحال نہیں کر سکے‘ ایک فطری سی بات ہے کہ جب کوئی بیمارپڑتا ہے تو وہ ہسپتال جاتا ہے اگرچہ سرکاری ہسپتالوں میں علاج کامعیار اور سہولتیں کبھی بھی قابل رشک نہیں رہیں مگر عوام کا پھر بھی ایک اعتماد تھا کہ ڈاکٹر اور ہسپتال ہی صحت کی ضمانت ہیں مگر اب یہ بھرم ٹوٹ گیا ہے‘ شروع دنوں میں قرنطینہ مراکز اور آئسولیشن سنٹرز میں جانے والے مریضوں کےساتھ نا مناسب سلوک کی وجہ سے اب اکثریت گھروں پر رہنے اور اپنے طور پر ہی غذائی علاج کرنے لگی ہے ۔
اب تو حکومت بھی یہی مشورہ دیتی ہے کہ کورونا ٹیسٹ مثبت آنے پر بھی گھر پر ہی رہیں مگر ویسے ہی لوگ ہسپتالوں میں جانے سے ڈرنے لگے ہیں حالانکہ اس بیماری سے اب تک سینکڑوں ڈاکٹر اور طبی عملہ متاثر ہوچکا ہے درجنوں ڈاکٹر تو جان بھی دے چکے ہیں لیکن اس کے باوجود بیماری پر کنٹرول نہیں ہو رہا‘ اس صورتحال میں اگر ہم چین ‘ نیوزی لینڈ اور دیگر چند ممالک کی مثال دےکر لاک ڈاﺅن ختم کریں تو یہ غیر دانشمندانہ فیصلہ ہے ‘ہمار ا ہمسایہ ملک ایران بہت متاثر ملک تھا اور عالمی پابندیوں کے باعث ہم سے زیادہ مشکل معاشی حالات کا شکار بھی تھا لیکن اس نے متاثرہ شہروں میں مکمل لاک ڈاﺅن کرکے پہلے کورونا کا پھیلاﺅ روکا اور اب تقریباً اس سے نجات حاصل کر چکا ہے مگر ہم نے پہلے تو سرحدوں اور ہوائی اڈوں پر کورونا کے حامل مسافروں کو روکنے میں کمزوری دکھائی اور پھر تاجروں پر ترس کھا کر لاک ڈاﺅن کھول دیا اور اب یہ مثال دے رہے ہیں کہ باقی دنیا بھی لاک ڈاﺅن نرم کر رہی ہے‘ اب بھی وقت ہے کہ کم از کم بیس دن کےلئے سخت لاک ڈاﺅن کیا جائے تو بہت حد تک کورونا کا زور ٹوٹ سکتا ہے ۔