ایک طرف عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو وارننگ دی ہے کہ وہ سخت لاک ڈاﺅن کرے‘ اس وقت کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کورونا کے پھیلاﺅ کے حوالے سے دنیا میں دسویں‘ جبکہ ایشیا میں چوتھے نمبر پر ہے اور یہ اعزاز حاصل کرنے کیلئے حکومت اور عوام نے بے خوف ہوکر مشترکہ کوشش کی ہے ورنہ اتنا آسان نہیں تھا‘ لیکن شاید ہمارے لئے کورونا کا مسئلہ صرف اعدادوشمار کا ایک مشغلہ ہی رہ گیا ہے‘ ہمیں اپنی حالت سدھارنے مےںکوئی دلچسپی ہی نہیں اور ویسے بھی ایک سے ایک بڑھ کر بحران نے ہمیں کورونا کو فراموش کرادیا ہے اب پٹرول پمپوں پر موٹر سائیکلوں کی لائنیں اور ہاتھوں میں بوتلیں اٹھائے آپس میں لڑتے لوگوں کو کون حفاظتی انتظامات کی پابندی کرائے اور سستی سبزی کیلئے منڈیوں میں مجمع لگانے والوں کو کیسے سمجھائے کہ اس طرح ان کیلئے خطرہ ہے ‘یہ درست ہے کہ عوام کی بڑی اکثریت کو دو وقت کی روٹی کا رونا ہے مگر اب تو حکومت بھی اسی جواز پر لاک ڈاﺅن نہیں کر رہی کہ لوگ بھوک سے مر جائیں گے‘ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے فضل سے پاکستان میں بھوک سے کسی کے مرنے کا کبھی مسئلہ پیدا نہیں ہوا اور جب بھی مشکل حالات ہوئے عوام نے احساس ذمہ داری کے ساتھ فراخدلانہ ایثار کا مظاہرہ کیا ہے‘ اب بھی عملی طور پر ملک میں تمام کاروبار 15 مارچ سے بند ہےں ابھی صرف دکانیں ہی کھلی ہیں‘ عوام کے باہمی تعاون سے یہ تین ماہ گزر گئے ہیں لیکن اس کی آڑ میں جو بے احتیاطی اختیار کی گئی اس کے نتائج بھیانک ہو کر سامنے آرہے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق ملک میں ایک چوتھائی آبادی کورونا سے متاثر ہے‘ بہرحال اس آگ میں ابھی چند ماہ مزید ہمیں چلنا ہوگا‘ حکومت کورونا کیلئے تو شاید کچھ نہ کر سکے مگر گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پہلی بار وزیراعظم اور وزراءنے اپوزیشن کی بجائے اپنی حکومت کی کارکردگی پر عدم اعتماد ظاہر کیا ہے‘ وزراءکی اکثریت نے تیل سستا ہونے کے باوجود ناپید ہونے اور عوام کو اس کے ثمرات نہ ملنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
‘اس کے ساتھ ہی چینی سکینڈل سامنے آنے کے باوجود اس کی قیمت کم نہ ہونے کو بھی حکومتی نااہلی کہاگیا ہے ‘زیادہ تر وفاقی وزراءغیر منتخب مشیروں اور معاونین خصوصی کی کارکردگی پر شاکی تھے جبکہ وزیراعظم نے دو دن میں پٹرول کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے اس بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کرنے کی ہدایت کی ہے اور کابینہ کے ذریعے عوام کو یقین دلایا ہے کہ چینی بحران کے کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ذمہ داروں کے خلاف ہر حال میں ایکشن لیا جائے گا‘ اس حوالے سے اپوزیشن کا الزام ہے کہ چینی سکینڈل کے ایک اہم کردار اورحکومتی ایوانوں میں بااثر شخصیت چند دن پہلے لندن چلی گئی ہے اور یہ خود کو احتساب سے بچانے کیلئے فرار ہے‘ خیر یہ پہلی بار نہیں ہوا اپوزیشن کی کئی اہم شخصیات کے لئے بھی لندن کا دامن ہمیشہ کشادہ رہتا ہے اور گاجریں کھانے والوں کے پیٹ کی تکلیف کا علاج تو ہوتا ہی لندن میں ہے ‘پاکستان میں تو صرف کھانے کیلئے گاجریں ہی ہیں لیکن کسی کیلئے پریشانی کی کوئی بات نہیں اگر کوئی پریشانی ہے تو وہ کورونا اور ٹڈی دل کی ہے جواب اقتدار کے ایوانوں اور حکمران اشرافیہ تک بھی پہنچ گیا ہے حالانکہ اس خدائی عذاب کا بڑا شکار صرف غریب ہی ہیں لیکن سیاستدانوں میں کورونا کی موجودگی کے بڑھتے قدم اور جاگیرداروں کی زمینوں پر ٹڈی کے حملوں کے بعد اب ان کی نیندیں بھی کم ہوگئی ہیں شاےد یہی وجہ ہے کہ پہلی بار کابینہ کے اجلاس میں حکومتی کارکردگی پر سوال اٹھائے گئے ہیں اب یہ بھی امید رکھنی چاہئے کہ حکومت بھی متحرک ہو جائے گی۔