حکومت نوٹس پہ نوٹس لے رہی ہے وزیراعظم سے لیکر وزرائے اعلیٰ تک دن میں کئی بار سخت نوٹس لیتے ہیں لیکن آٹا اور پٹرول ہیں کہ عوام کے ہاتھ نہیں آرہے اور پھر اعلیٰ عدالتیں بھی نوٹس لے رہی ہیں لیکن یہاں بھی کوئی چھوٹا افسر ایک لکھا ہوا بیان پڑھ دیتا ہے کہ کمیٹی یا کمیشن بنادیاگیا ہے جلد معاملات درست ہو جائیں گے‘ یہ روز کا معمول بن چکا ہے جس بحران پر کمیٹی بنائی جاتی ہے اس میں اس بحران کے اصل ذمہ داروں کو ہی بٹھا دیا جاتا ہے اور اس کا نتیجہ کبھی عوام کے حق میں نہیں نکلتا ‘آٹے کا معاملہ بڑا عجیب ہے اگر یہ صوبہ خیبرپختونخوا میں ہو تو کہا جاتا ہے کہ پنجاب نے گندم کی ترسیل روک لی ہے مگر پنجاب میں اس بحران کی وجہ کیا ہے وہاں تو فاضل مقدار میں گندم موجود ہے وہاں کیوں فلور ملز بند ہیں اور آٹا مہنگا ہے‘ پس ثابت ہوا کہ کسی اہم ضرورت کی چیز کا بحران کسی کمی بیشی کا محتاج نہیں ہوتا یہ ایک مخصوص سوچ اور نیت کا کارنامہ ہوتا ہے اور یہ سوچ ہر شعبے میں موجود ہے‘عام حالات میں تو باری باری یہ کام کرتے تھے کبھی چینی‘ کبھی آٹا اور کبھی پٹرول کا بحران‘ مگر کورونا وبا کے باعث جیسے جیسے عوام کی قوت خریدکم ہو رہی ہے تمام شعبوں میں حرکت پذیری آگئی ہے‘آٹا تو ایسی چیز ہے کہ اس کے بغیر گزارہ ممکن ہی نہیں اور دس روپے کی روٹی پچاس روپے میں بھی بک ہی جاتی ہے مگر یہاں چینی جیسی مضر صحت چیز پر بھی لوگ دگنی قیمت دینے کو تیار رہتے ہیں ‘اب گزشتہ چار ماہ سے چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا تھا اس پر کمیشن بنا لمبی تحقیق ہوئی توبڑے گھپلے سامنے آئے‘ اربوں روپے کھانے والوں کے نام سامنے آگئے مگر چینی کی قیمت میں کمی نہیں آئی اور عوام کا حوصلہ دیکھیں کہ اسی بات پر خوش ہو رہے ہیں کہ چینی بحران پیدا کرنے والوں کا پتہ چل گیا ہے کسی ایک بندے نے یہ نہیں کہا کہ جب چوری پکڑی گئی اور ثابت ہوگیا کہ شوگر مافیا نے اربوں روپے عوام سے اور حکومت سے لوٹ لئے ہیں اب تو چینی کی قیمت مےںکمی کی جائے اور اب توشوگر ملز مالکان نے اس بحران پر بننے والے کمیشن اور اس کی رپورٹ کےخلاف عدالت عدلیہ سے رجوع کرلیا ہے اب وہ بھی اپنی مظلومیت کا رونا روئیں گے‘ ۔
آٹے والے ان سے چھوٹے ہیں اسلئے اب شاید آٹے کا بحران کم ہو جائے البتہ پٹرول کو ناپید کرنے والے اتنے طاقتور ہیں کہ دس دن سے سپلائی نہیں دے رہے مگرمسئلہ حل نہیں ہورہا‘ حد تو یہ ہے کہ عوام کو ایک بار یہ پتہ چل جائے کہ پٹرول کا بحران آنے والا ہے تو بلاضرورت ہی فلنگ سٹیشنز پر ہلا بول دیتے ہیں ‘ایک طرف کام روزگار بند ہیں گھر سے باہر نکلنے پر پابندی ہے مگر پٹرول پمپوں پر قطاریں ہیں کہ ان کی حد نہیں‘کسی کو جان کی پرواہ نہیں‘ پٹرول ملنے کا یقین نہیں مگر یقینی طور پرکورونا کا وائرس لےکر گھروں کو لوٹتے ہیں اس جنون سے پٹرول کمپنیاں فائدہ اٹھاتی ہیں ان کو مانیٹر کرنےوالے ادارے بھی ان کمپنیوں کے ہی ہمدرد ہیں‘ڈی جی پٹرولیم نے تو اپنی سے پیشگوئی کردی ہے کہ اب پٹرول مہنگا ہوگا اب اس پر کون ان سے پوچھ سکتا ہے کہ اس موقع پر ایسے بیان کا کیا مقصد ہے ‘محسوس ایسے ہوتا ہے کہ سٹاک میں پٹرول ہونے کے باوجود مصنوعی بحران پیدا کرنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ عوام کی قوت خرید کا اندازہ لگایا جائے‘ اب سب نے دیکھ لیا ہے کہ لوگ کم مقدار اور معیار کا پٹرول بھی 150 روپے لٹر تک خرید رہے ہیں اس لئے اگر 100 روپے تک قیمت ہو جائے تو نہ صرف خوشی خوشی خریدیں گے بلکہ اس بات پر شکریہ بھی ادا کریں گے کہ مل تو رہا ہے ‘باقی جہاں تک نوٹس لینے اور کاروائی کرنے کا تعلق ہے تو پہلے چینی اور آٹے والوں کا کس نے کچھ بگاڑ لیا ہے کہ اب پٹرول بحران کے ذمہ داروں کو سزا ملنے کی امید رکھیں‘جب تک عوام خود لٹنے کو تیارہوں تو لوٹنے والے کیوں فائدہ نہیں اٹھائیں گے ‘نوٹس لینا‘ کاروائی کرنا اور انکوائریاں کرنا محض پردہ داری کے حربے ہیں کسی خوش فہمی میں رہنے کی ضرورت نہیں۔