چینی کی قیمت

 چینی اگرچہ ہر لحاظ سے مضر صحت قرار دی جانے والی چیز ہے مگر ہمارے ہاں خوراک کا لازمی حصہ ہے‘پاکستان کی تاریخ میں یہ بات ثابت ہے کہ چینی کی قیمت میں اضافے سے کئی حکومتوں کا تختہ ہوا سب سے اہم سابق صدر ایوب خان ہیں ان کےخلاف سیاسی تحریک اپنی جگہ مگر متحدہ اپوزیشن کبھی بھی ان کے اقتدار کیلئے خطرہ نہیں بن سکی تھی لیکن چینی کی قیمت میں4 آنے( 25 پیسے) اضافہ عوام کو سڑکوں پر لے آیا اور پھر یہ تحریک ان کی ایوان صدر سے روانگی کا باعث بنی‘ اب ایک بار پھر چینی کی قیمتیں اور چینی ملوں ک لوٹ مار قومی سیاسی منظرنامے پر سرفہرست ہے‘اس سال کے شروع میں یہ سکینڈل منظرعام پر آیا کمیشن بنا پھر ایک جے آئی ٹی بنی اور انکشافات کا پنڈورا بکس کھل گیا‘کبھی چینی کی پیداوار زیادہ ظاہر کرکے برآمد کرنے کیلئے سرکاری سبسڈی لی گئی تو کبھی کم پیداوار کی وجہ سے وہی چینی درآمد کرنے کیلئے رعایت حاصل کی گئی‘یہ سارا کام صرف کاغذوں کی حد تک ہوتا رہا‘جے آئی ٹی نے فارنزک انکوائری میں ڈبل کھاتے اور جعلی ایکسپورٹ کے پرمٹ بھی ڈھونڈ لئے اور اس انکوائری کی بنیاد پر چند حکومتی اپوزیشن کے سیاستدانوں پر الزامات لگائے گئے ابھی اس پر عملدرآمد شروع نہیں ہوا تھا مگر اس ساری انکوائریوں اور تفتیش کے دوران بھی چینی کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا حتیٰ کہ رمضان میں چینی بازار میں90 روپے کلو تک پہنچ گئی۔

ابھی ایک ہفتہ قبل شوگر ملز ایسوسی ایشن نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں شوگر کمیشن کی رپورٹ کےخلاف درخواست دائرکی اس میں کمیشن رپورٹ کی بنیاد پر شوگر ملز کےخلاف کاروائی روکنے کی استدعا کےساتھ جے آئی ٹی کی انکوائری کو غیر آئینی قرار دےکر منسوخ کرنے کی درخواست بھی کی گئی عدالت عالیہ نے ابتدائی سماعت پر ہی عبوری ریلیف دیتے ہوئے حکومت کو کاروائی سے روک دیا اور ساتھ ہی شوگر ملز کی تنظیم سے 10 دنوں میں چینی کی قیمت 70 روپے کلو تک لانے کا حکم بھی دےدیا‘ اس سارے سکینڈل کے انکشاف اور تحقیق و تفتیش کے دوران پہلی بار اسلام آباد ہائیکورٹ نے چینی کی قیمت کم کرنے کی بات کی ورنہ حکومتی وزراءاور معاون خصوصی صرف لوٹ مار کے طریقے اور اس میں ملوث افراد کےخلاف کاروائی کے دعوے کرتے رہے اور عوام ان طوطا کہانیوں پر خوش ہوتے رہے‘اب پہلی بار عدالت عالیہ نے بڑھتی ہوئی قیمت کا نوٹس لیا تو اب ایک طرف شوگر ملز کی تنظیم نے چینی کی قیمت70 روپے کرنے کی پیشکش کردی توساتھ ہی حکومتی ترجمانوں نے بھی یہ کریڈٹ لینے کی کوشش شروع کردی اور اس سارے سکینڈل کے مرکزی کردار کی حیثیت سے سامنے آنےوالے تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کی شوگر ملز نے تو جنوبی پنجاب میں اپنے طور پر سٹال لگا کر70روپے فی کلو فروخت بھی شروع کردی ہے‘یہ دراصل عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے ‘یہ بات بھی ثابت ہوگئی ہے کہ70 روپے کلو فروخت کرکے بھی ملزکو معقول منافع مل رہا ہے‘یہ حکومت کی چشم پوشی سے گزشتہ تین ماہ سے20 روپے سے زائد فی کلو منافع کماتی رہی ہیں اس کو منافع کی بجائے لوٹ مار کہنا زیادہ مناسب ہے‘ اب عدالتی حکم کے بعد رضاکارانہ طورپر چینی سستی کرنے کا ڈرامہ یہ بتا رہا ہے کہ مختلف مافیاز کس حد تک حکومت اور عوام کو بے وقوف بناکرلوٹ مار کررہے ہیں۔