ہم جس دنیا میں رہتے ہیں وہاں ہر چھوٹی سے چھوٹی بات کا بھی پڑوسیوں اور دیگر دنیا کے ممالک پر اثر پڑتا ہے‘الیکٹرانک میڈیا نے دنیا کو سکیڑ کر رکھ دیا ہے‘ امریکہ میں ہونےوالی معمولی سی بات بھی چند سیکنڈوں میں ساری دنیا تک پہنچ جاتی ہے اور ہوائی سفر نے فاصلے بھی محدودکر دےئے ہیں ‘جو سفر اٹھارویں صدی میں ایک ہفتے سے بھی زیادہ کا وقت لیتا تھا وہ سفر چند گھنٹوں کا ہوکر رہ گیا ہے‘اسلئے جو واقعہ بھی دنیا کے ایک کونے میں ہوتا ہے اسکا اثر دنیاکے دوسرے کونے تک گھنٹوں میںپہنچ جاتا ہے‘ پہلے کوئی بھی متعدی مرض ایک شہر یا ایک ملک تک محدود رہتا تھا مگر اب ایسا نہیں ہے بلکہ کوئی بھی متعدی بیماری چند لمحوں میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتی ہے‘کورونا نے چین میں جنم لیا‘وہاں ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا ہوگا کہ اس سے پڑوسی ممالک نے اثر لینا شروع کر دیا ‘اس کے بعد اس نے یورپ کا رخ کیا اور چند دنوں میں پورا یورپ ‘روس اور امریکہ اس کی زد میں آ گئے‘امریکہ سے ہوتا ہوا یہ برازیل اور اس کے نواحی ممالک میں پہنچ گیا اور اس میں سال نہیں بلکہ دن لگے‘اس نے جو تباہی پوری دنیا میں مچائی وہ بھی سب کے سامنے ہے‘جس تیزی سے یہ دنیا میں پھیلا اتنی ہی تیزی سے اس کے حالا ت سے پوی دنیا واقف ہو گئی‘اب ہر سیکنڈ کے بعد معلوم ہو رہا ہے کہ اس نے دنیا میںکس طرح تباہی مچا رکھی ہے۔
دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے کہ جہاں اس نے سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو لقمہ اجل نہ بنایا ہو‘ اس صورت میں کوئی ملک بھی دوسرے ملک سے علےحدہ نہیں ہو سکتا‘ساری دنیا کو ایک دوسرے کی مدد بھی کرنی ہے اور اس سے بچاو¿ کے طریقوں پر ایک دوسرے کی تجربات سے فائدہ بھی اٹھانا ہے‘ اس کےلئے جو بھی بین الاقوامی ادارے کسی ملک کو کوئی تجویز دیں گے تو اس ملک کو اس پر عمل کرنا ہوگا‘ یہ نہیں ہو سکتا کہ اس سلسلے میں کوئی ملک اپنی من مانی کرے‘کورونا کے پھیلاو¿ کےساتھ ہی غلط فہمیوںاور افواہوںکا بازار بھی گرم ہوگیا ہے۔ ہر ملک کے باسی اپنی ایک تھیوری لےکر آ رہے ہیں‘کوئی اسے چین کی سازش کہہ رہا ہے تو کوئی اسے امیر لوگوں کی سازش کہہ رہا ہے‘ امریکہ چین پر الزام دھر رہا ہے اور چین کسی اور ملک پر مگر صورتحال یہ ہے کہ کورونا ایک حقیقت ہے اور اس حقیقت کاہم سب نے مل کر مقابلہ کرنا ہے‘ہم نے ہر اس ملک کی حکمت عملی سے فائدہ اٹھانا ہے کہ جس نے اس وبا پر قابو پا لیا ہے ۔
یا اس کے زور میں کمی کرلی ہے‘جن ملکوں نے اپنی من مانیاں کی ہیں یا جن کے عوام نے کورونا سے بچاو¿ کی تدابیر سے اتفاق نہیں کیا وہ سب کے سامنے ہیں کہ وہاں مرنے والوں کی تعداد ہزاروں سے نکل کر لاکھوں میں پہنچ رہی ہے۔کورونا کو صرف وہ ممالک قابو کر سکے ہیں کہ جہاںحکومت کے ہاتھ بہت مضبوط ہیں یا وہاں کے عوام نے حکومت کا بھرپور ساتھ دیا ہے ‘اٹلی‘ برازیل ‘امریکہ کے عوام نے حکومت کی پالیسیوں کو نظرانداز کیاہے تو وہاں کورونا نے بھی جم کر اپناکام دکھایا ہے‘اس کے مقابلے میں چین‘کوریا‘جاپان اور نیوزی لینڈ ہیں کہ جہاں حکومت کے احکام کو مانا گیا ہے یا زبردستی منوایا گیا ہے تو وہاں مرنے والوں کی تعدادبھی مقابلتاً کم ہے اور چین میں تو اب سکولوں کو بھی کھول دیا گیا ہے۔ ہمارے ملک کا یہ حال ہے کہ یہاں حکومت بھی کنفیوز دکھائی دیتی ہے کبھی یہ لاک ڈاو¿ن کا عندیہ دیتے ہیں اور کبھی لاک ڈاو¿ن کو امیروں کی سازش قرار دیتے ہیں‘اور اس کش مکش میں کورونا کو کھل کھیلنے کا موقع فراہم کر دیا گیاہے‘ اور جہاں پہلے دن میں ایک موت واقع ہوتی تھی وہاں اب دن میں ایک سو پانچ تک کی گنتی ہوگئی ہے۔ اس کے باوجود ہمارے مشیر صحت کا کہنا ہے کہ ہم کسی بھی بین الاقوامی مشورے کے پابند نہیں ہیں‘یہ جو عالمی ادارے نے مشورہ دیا ہے کہ دو ہفتے لاک ڈاو¿ن اور دو ہفتے اوپن کریں تو یہ ہمارے حالات سے میچ نہیںکرتاجبکہ صورتحال یہ ہے کہ ہسپتالوں میں مریضوں کےلئے جگہ بھی نہیں ہے اور وےنٹی لیٹرز کی بھی کمی ہے‘ بدقسمتی یہ ہے کہ عوام مان ہی نہیں رہے کہ کورونا کوئی وبا بھی ہے۔