ڈینگی کی دستک

حکمرانی یا دوسرے لفظوں میں گورننس کا یہ اصول ہے کہ ہر شعبہ اور ادارہ اپنے متعلقہ معاملات پر ہمہ وقت نظر رکھتا ہے‘اس حوالے سے دنیا میں ہونیوالی پیشرفت اور مستقبل کی حکمت عملی طے کی جاتی ہے‘اسی وجہ سے دنیا میں کبھی کوئی بحران اچانک نہیں آتا‘ کورونا پہلی بار سامنے آنےوالا وائرس تھا‘ اسلئے دنیا اس کو سمجھ نہ سکی اور نہ تدارک کرسکی‘ اس کے برعکس ہمارے ہاں کسی ادارے کو اپنی ذمہ داریوں کا ہی احساس نہیں‘کورونا بھی جب ہمارے ملک میں داخل ہوا‘ اسوقت اس کے بارے میں آگاہی ہوچکی تھی مگر ہم نے اس پر توجہ نہیں دی‘ ٹڈی دل کی بھی یہاں پیدائش ہوئی بلکہ باہر سے داخل ہوئی اور اس بارے میں بھی پیشگی اطلاع تھی مگر ہمیں اسوقت تک احساس نہیں ہوا‘ جب تک یہ چاروں صوبوں کے 60 فیصد زرعی علاقے میں پھیل نہیں گئی‘ اب ایک اور وباءہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے لیکن کسی کو اس کی سنگینی کا احساس نہیں اور یہ کوئی نئی نہیں بلکہ کئی سالوں سے مسلط ڈینگی بخار کی وباہے‘ ڈینگی مچھر کی افزائش شروع ہو چکی ہے‘ یہ وقت ہوتا ہے اس مچھر کے لاروے اور انڈے تلف کرنے کا‘ اس سے تدارک کیلئے موثر سپرے کرنے کا تاکہ نقصان ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجائے لیکن کسی سطح پر کوئی قابل ذکر کام نہیں ہو رہا‘حالانکہ ہر صوبے میں انسداد ڈینگی کیلئے خاص محکمے موجود ہیں‘ صوبہ خیبرپختونخوا نے اس حد تک تو کام شروع کردیا ہے کہ آگاہی مہم اور اشتہار شروع کردیئے لیکن دوسرے صوبوں نے اپنی بے خبری جاری رکھی ہوئی ہے‘ اگرچہ یہ کام ایسا نہیں کہ اس کو عوام پر چھوڑ دیا جائے بلکہ صحت کے اداروں نے خود اس کا تدارک کرنا ہے کیونکہ اس سال کورونا کی وجہ سے صورتحال بالکل مختلف ہے‘ اب عام ہسپتال اور او پی ڈیز بھی بند ہیں‘ پہلے کی طرح ڈینگی مریضوں کیلئے مخصوص آئسولیشن وارڈز بھی ممکن نہیں‘کورونا مریضوں کیلئے قائم مراکز میں بھی ڈینگی مریضوںکو نہیںرکھا جاسکتا‘ اسلئے ضروری ہے کہ ڈےنگی کو شروع ہی نہ ہونے دیا جائے اور یہ ایسا مشکل کام نہیں ہے‘سری لنکا جیسا ملک موثرنگرانی سے ایسا کرسکتا ہے۔

 توہمیں بھی کچھ نہیں ہوگا‘ضرورت صرف احساس ذمہ داری اور خلوص سے کام کرنے کی ہے‘اس سال محکمہ موسمیات نے پری مون سون بارشوں میں شدت کی پیشگوئی بھی کی ہے‘یہ دو طرح کے انتظامات کا تقاضا کرتا ہے‘ایک تو سیلاب اور شہروں میں بارشی نالوں میں طغیانی سے بچاﺅ کے انتظامات اور جگہ جگہ گندے پانی کے جوہڑ کھڑے ہونے سے ڈینگی مچھر کی پیدائش وافزائش بڑھ جائے گی‘اس کیلئے موثر سپرے کا انتظام‘ یہ زلزلے کی طرح اچانک آنے والی افتاد نہیں بلکہ ہمیں یقینی اطلاع ہے کہ ایسا ہونا ہے‘ اس کے باوجود اس سے حفاظت اور بچاﺅ نہ ہوسکے تو پھر ذمہ دارکا تعین بھی مشکل نہیں اور ڈینگی کا مرض اگر ایک دفعہ پھیل گیا تو یہ کورونا سے بھی زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے کیونکہ یہ بھی تیزی سے پھیلتا اور مریض کو موت کے قریب لے جاتا ہے‘ اس بار ڈینگی بھی کورونا کی ہی دوسری شکل میں آنے کا خطرہ ہے اور اگر پیشگی اطلاع ہونے کے باوجود اس کا تدارک نہ ہوسکا تو پھر شاید اس سے بڑی نااہلی نہیں ہوسکتی‘ اس سال ڈینگی بھی زیادہ خطرناک ہوگا کیونکہ سالہاسال سے آنے والا مچھر بھی اب زیادہ سخت جان ہوگیا ہے‘اگر انسدادی سپرے میں ملاوٹ کرکے صرف خانہ پری کی گئی تو پھر یہ بھی حاوی ہوجائے گا‘صوبائی حکومتوں کو انسداد ڈینگی مہم کو فوری شروع کرنے اور روزانہ کی بنیاد پر مانیٹرنگ کی ضرورت ہے۔