کس کویاںپرواہے کسوکی‘ٹھہروآﺅ‘جاﺅتم

اور اب رفتہ رفتہ سوشل میڈیا سے وہ سارے شوخ تبصرے ‘ مزاحیہ ویڈیوز اور چٹکلے فیڈ آو¿ٹ ہو رہے ہیں جو یار لوگ کوروناکے حوالے سے ایک تواتر کےساتھ لگا رہے تھے‘شاید اب ان کو اندازہ ہونے لگا ہے کہ اس وبا کے بارے میں جو اندازے لگائے گئے تھے وہ سب غلط ثابت ہوئے‘اتنے بڑے پیمانے پرپوری دنیا میں ہلاکتوں کی خبریں پڑھنے‘سننے اور دیکھنے کے باوجو د ہمارے ہاں کوئی بھی اسے سنجیدہ نہیں لے رہا تھااسلئے بار بار خبردار کرنے کے باوجود یار لوگ احتیاطی تدابیر کی طرف نہیں جارہے تھے‘سو وبا نے زور پکڑا اور اب جب آئے دن اطراف سے جاننے والوں اور اپنے پیاروں کے بارے میں دکھ بھری خبریں ملنے لگیں تو یار لوگ چوکنا ہوئے خصوصاً جب ممتاز معالجین بھی اس موذی وبا کا شکار ہونا شروع ہوئے تو جیسے ایک چپ ‘ایک لمبی چپ سارے میں پھیل گئی‘ مجھے یاد ہے کہ پشاور میں اس دن اس چپ میںمایوسی‘خوف و ہراس اور بے یقینی بھی شامل ہو کر صورتحال کو گھمبیر بنا گئی ‘جس دن مقبول و ممتاز معالج اور دوست مہربان ڈاکٹر انتخاب عالم کے بارے میں خبر آئی کہ وہ بھی اس وائرس کا شکار ہو گئے تو یقین جانئے پورا شہر چیخ اٹھا تھا‘اور دوسرے ہی دن سوشل میڈیا پر ان کے حوالے سے کسی سبک سر نے ایک ایسی دکھ بھری پوسٹ لگادی کہ مانو سارا شہر بلک اٹھا‘میڈیا ہاو¿سز اور اخبارات کے دفاتر تو ایک رہے ان کے احباب کے فون پر بھی ’خبر کنفرم کرنےوالوں ‘کی کالز کا تانتا بندھ گیا‘خود مجھے ان گنت فون کالز اور میسجز آئے‘ میںاحباب کو بتاتا رہا کہ ایسا کچھ نہیں آپ ان کی جلد صحت یابی کےلئے دعاکریں‘میرے جواب سے لوگ الجھ جاتے اور نوبت بہ اینجا رسید کہ ڈاکٹر انتخاب عالم کو خود ہسپتال کے بیڈ سے ویڈیو پیغام بھیجنا پڑا۔

بلا کے مضبوط اعصاب کے مالک ڈاکٹر کو ‘ان کی فیملی کو اور ان کے چاہنے والوں کو اس بیماری سے زیادہ اس خبر نے کتنا دکھی کیا ہوگا اسکا اندازہ سبک ساران ِ ساحل چاہیں بھی تو نہیں لگا سکتے‘مجھے تو یقین نہیں آتا کہ وبا کے اس غیر یقینی اور سفاک موسم میں کوئی اتنا کٹھور اور بے درد بھی ہو سکتا ہے ڈاکٹر انتخاب عالم ہی کے حوالے سے اس اطلاع سے بھی میرے ڈپریشن میں مزید اضافہ ہو گیا کہ ان کا کورونا ٹیسٹ پہلے نیگےٹو آیامگر پھر علامات ظاہر ہونے پر دوبارہ پازٹیو آیا‘ میں جانتا ہوں کہ زمین زادوں کےلئے یہ وائرس ایک نیا تجربہ ہے سو ابھی اس سے جڑا ہو ا بہت کچھ ابھی حتمی نہیں ہے اور ٹےسٹ کے بارے میں تو یہ بھی شنید ہے کہ 33 فیصد غلطی کا امکان رہتا ہے‘ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہ جو ہر شہر اور قصبے میں لیبارٹریز کا ایک جال بچھا ہوا ہے اس میں سے کتنے فیصد لوگوں کو ان کے رزلٹ صحیح مل رہے ہیں‘حالانکہ لیبارٹری والے سارے ایکسپرٹس جانتے ہیں کہ ان کی ایک غلط ریڈنگ مریض اور معالج کو کتنی مشکل میں ڈال سکتی ہے لیکن ان کو تو’ اپنے حلوے مانڈے سے غرض ‘ ہوتی ہے‘ یہی حال زندگی کے دوسرے شعبوں میں ہے حلال گوشت کے نام پر جانے انجانے میںشہری کیا کچھ کھاتے رہتے ہیں‘سڑکوں پر ٹریفک کے حادثات ہوں کہ ٹرین کے ڈبوں کا پٹڑی سے اتر جانا یا شارٹ سرکٹ سے آگ کا لگنا ہویا پھر قومی ائیر لائن کے کم کم وقفوں سے جان لیوا حادثات ہوں ان سب کے پیچھے ٹیکنکل سٹاف کی تن آسانی اور بغیر معائنہ کے سب ٹھیک ہے کی رپورٹ کارفرماہے۔ قابل اجمیری نے کہا ہے کہ

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
 حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
 
جب کوئی حادثہ ہوتا ہے چند روز انکوائری کاخوب ہنگامہ رہتا ہے پھر رفتہ رفتہ گرد بیٹھ جاتی ہے‘ اسی سے ادارے اپنا وقار اور اعتبار کھو دیتے ہیں ‘کیا ہمارے ہاں کوئی ایسا سسٹم مو جود ہے جو ایسے واقعات کا احتساب یا سد باب کرے‘کچھ دن قبل دوست عزیز معروف مزاح نگار شاعر انعام الحق جاوید سے میری فون پر بات ہورہی تھی میں نے ان سے بھی اپنا یہ دکھ شیئر کیا تو انہوں نے مجھے یہ کہہ کر حیران کر دیا کہ آپ کو شاید علم نہیں مگر یہ جو وفاقی محتسب کا ادارہ ہے ‘اگر بہت سے مسائل کو وہ حل نہ کر رہا ہو تو ملکی فضا اتنی مکدر ہو جائے کہ سانس لینا بھی محال ہو جائے‘میں نے کہا ان کو تو چوروں لٹیروں اور ملکی خزانہ لوٹنے والوں کے احتساب سے فرصت ملے تو وہ عمومی مسائل کی طرف متوجہ ہوں‘ کسی ستم ظریف نے بےنک کی تعریف کرتے ہوئے لکھا تھا ’کہ بےنک وہ ادارہ ہے جو ان لوگوں کو قرض دینے کےلئے پریشان رہتا ہے جو قرض لینے کےلئے کبھی پریشان نہیں ہوتے‘ تو یہ احتساب کا ادارہ بھی بڑے لوگوں کےساتھ شب و روز نبرد آزما ہے‘ انعام الحق جاوید نے اپنے مخصوص انداز میں ہنستے ہوئے کہا کہ ” جناب یہ ادارہ وہ بھی کرتا ہے اور یہ بھی کرتا ہے “ مگر شاید کم کم لوگ اس کی پوری کارکردگی سے آگاہ ہیں‘پھر کمال مہربانی سے انہوں نے مجھے ایک چشم کشا رپورٹ اور ایک نیوز بلیٹن بھجوایا۔ مجھے حیرانی ہوئی کہ ہر چند یہ ادرہ ملک بھر کے سرکاری اداروں کےخلاف عوام الناس کو ریلیف فراہم کرتا ہے اور صرف وفاق میں ہی نہیں اس کی شاخیں ملک کے کئی اہم شہروں میں بھی موجو دہیں تا کہ عام آدمی کو گھر کے قریب ہی شکایت کے اندراج کی سہولت ملے‘ اور اب تو خیر مو بائل ایپ متعارف کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی کہیں سے بھی انسٹا گرام‘سکائپ یا آئی ایم او پر اپنی شکایت درج کرا سکتا ہے۔

 جس کی رسید اور شکایت نمبر اس کو دوسرے ہی دن بھیج دیا جاتا ہے اور پھر چالیس سے ساٹھ دن کے اندر اس کی شکایت کا ازالہ ہو جاتا ہے‘ صرف 2019 کے سال کی کارکردگی دیکھی جائے تو موصول ہونے والی 74,869 شکایت کے فیصلے فاقی محتسب سید طاہر شہباز کی ذاتی دلچسپی سے محض ساٹھ دنوں میں مکمل ہوئے اور97 فیصد پر عملدرآمد بھی ہوگیا اور موصول ہونےوالی شکایات گزشتہ برس کی نسبت ساڑھے سات فیصد سے زیادہ تھیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عام آدمی کی یہاں سے فوری اور مفت انصاف کی توقع بڑھتی جاتی ہے‘اسلئے وفاقی محتسب کے ادارے کو غریبوں کی عدالت بھی قرار دیا جاتا ہے‘ نیوز بلیٹن کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ اس ادارے نے جہاں شکایات موصول ہونے پر ملازمین کے بچوں کوملازمتیں دلائیں 27 سال بعد گم گشتہ پلاٹ واگزار کرائے‘طالبات کےلئے ہائی سکول کے قیام کی ہدایات دیں‘پنشنر کے بقایا جات کی ادائیگی کو ممکن بنایا ازخود نوٹس لیتے ہوئے دیگر اہم شکایتوں کا قلع قمع کیا جس میں باو¿لے کتے کے کاٹنے کی ویکسین کو دستیاب کرانا بھی شامل ہے وہاں سوشل میڈیا کے عروج کے اس دور میں سب سے اہم اور حساس مسئلہ اداروں (بشمول تعلیمی اداروں)میں خواتین کو ہراساں کرنے کی شکایات کی بھی بروقت شنوائی ہوئی‘ویسے تو احتساب کا ادارہ حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے سے کام کر رہا ہے اور ہر دور میں اس اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے اسلئے ہر ملک کا اپنا ایک احتساب کا نظام ہے تا ہم ایشیا کے ممالک کی چوالیس ارکان پر مشتمل ایک تنظیم اے او اے ( ایشین امبڈ سمین ایسوسی ایشین) بھی 1996 سے کام کر رہی ہے سید طاہر شہباز اسوقت ’ اے او اے ‘ کے بھی صدر ہیں‘مجھے تو اس حیران کن رپورٹس نے چپ کرا دیاہے کیا ہی اچھا ہو کہ اب عوامی اداروں کے خلاف بھی شنوائی کی مثبت اور فوری انصاف کی کوئی صورت بھی پیدا ہو جائے تو اس نیلے آسمان تلے عام شہری کو ایک صاف‘شفاف اور منزہ فضا میں کھل کے سانس لینے کی سہولت مل سکے تو پھر کوئی میر یہ شکایت نہیں درج کرائے گا۔
صبر کرو ‘ بے تاب رہو ‘ خاموش پھرو یا شور کرو
 کس کو یاں پروا ہے کسو کی‘ٹھہرو ‘آو¿ ‘ جاو¿ تم