چین اور بھارت کے درمیان سرحدی کشےدگی اور لداخ میں دونوں ممالک کے فوجیوں میں جھڑپ تشویشناک بات ہے‘جنوبی ایشیا کی دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان اس طرح کا تصادم جس میں درجنوں فوجی ہلاک ہوگئے ہوں دنیا کیلئے خطرے کی علامت سمجھی جاسکتی ہے لیکن بھارت اور چین کے فوجیوں کے درمیان یہ غیر معمولی اور عجیب لڑائی ایسی ہے کہ کسی طرف سے ایک گولی بھی نہیں چلی‘کہا جاتا ہے کہ چین کے دعوے کے مطابق اس کے علاقے میں بھارتی فوجی ایک کرنل کی قیادت میں داخل ہوئے‘چینی فوجیوں نے روکنے کی کوشش کی تو وہ باز نہ آئے اس پر چینیوں نے کیلوں سے لیس لاٹھیوں اور پتھروں سے بھارتی فوجیوں کی ٹھکائی کردی‘ یہ صورتحال سورماﺅں کیلئے غیر متوقع تھی بھارتی فوجی شدید زخمی ہوگئے اور سردترین بلندی پر بے ےارومددگار پڑے رہنے سے اکثر کی موت واقع ہوگئی‘ مصدقہ اطلاعات کے مطابق 20 بھارتی مارے گئے جن میں کمان کرنےوالا کرنل بھی شامل ہے۔
لیکن غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ بہت سے بھارتی بلندی سے گرنے کی وجہ سے بھی ہلاک ہوئے اور ان کی تعداد 100 تک ہے اسکی وجہ بھارت کا ہمسایہ ممالک کےساتھ جارحانہ انداز میں سرحدی تنازعات اٹھانا اور توسیع پسند عزائم کیلئے ہمسایوں کو دباﺅ میں لانے کی کوشش ہے‘ چین ایک امن پسند اور اپنی علاقائی سلامتی کے دفاع پر یقین رکھنے والا ملک ہے بھارت نے1963 میں چین سے لڑائی کی تھی اس وقت چین ایک ترقی پذیر اور آبادی کے دباﺅ میں رہنے والا ملک تھا مگر اس نے اسوقت بھی بھارت کو سبق سکھادیا تھا بعد میں لداخ اور کارگل کے علاقوں میں اپنی فوجی طاقت بڑھانے کیلئے بھارت نے سڑکیں اور ائرفیلڈز بنانا شروع کر دیں اس کام میں وہ چین کے علاقے کو بھی چھونے لگا چین نے کئی بار اس بات پر تنبیہ کی اور اپنی حدود میں رہنے کی تلقین کی لیکن بھارتی سورما زبانی اور امن سے کی گئی بات کو کم ہی سمجھتے ہیں اسی وجہ سے مئی کے شروع میں گلوان کی وادی میں ایک جھڑپ ہوئی تھی وادی گلوان میں ایک وسیع قطعہ اراضی اور جھیل موجود ہے یہ چین کا حصہ ہے اور مئی کی جھڑپ کے بعد چین نے یہاں فوجی تعینات کرکے قبضہ مستحکم کرلیا ہے‘گزشتہ روز ہونیوالا واقعہ چین کی تنبیہ کے باوجود بھارتیوں کی دخل اندازی کے باعث پیش آیا اور واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتی فوجیوں کی اتنی ہلاکتوں کی وجہ چینیوں کی مار سے زیادہ خود بھارتیوں کا خوف ہے جس کے باعث وہ زخمی فوجیوں کو فوری طبی امداد کیلئے نہیں اٹھا سکے اور معمولی زخمی بھی خوف اور سردی سے ٹھٹھر کر ہلاک ہوگئے۔
محاذ پر جن فوجیوں نے چینیوں کی ماردیکھی ہو ان کا خوفزدہ ہونا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اس واقعہ کا اثر اتنا گہرا ہوا کہ 24 گھنٹے تک بھارتی قیادت بھی مبہوت ہوگئی‘وزیراعظم مودی نے فوجی قیادت سے ملاقاتیں کیں مگر نہ ہی عسکری قیادت نے کوئی ردعمل دیا اور نہ ہی سیاسی قیادت نے‘دریں اثناءچین کی وزارت خارجہ نے بھارت کی حدود سے تجاوز کو اس تصادم کی وجہ قرار دیا اور بھارت کو پھر خبردار کیا کہ اپنی حدود میں رہے اور ساتھ ہی یاددہانی کرائی کہ وادی گلوان چین کا حصہ ہے‘ واقعہ کے36 گھنٹے بعد بھارتی وزیراعظم نے قوم کو بتایا ہے کہ ہماری امن پسندی کو کمزوری نہ سمجھا جائے‘اب بھارت کی امن پسندی تو دنیا جانے نہ جانے اسکے ہمسائے اچھی طرح جانتے ہیں‘اسی امن پسندی کا مظاہرہ وہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر روز کرتا ہے اور نیپال کےساتھ سرحد پر بھی یہی کر رہا ہے‘ اب تو نیپال نے بھی اپنی حدود کا ازسرنو تعین کرکے حفاظت کیلئے کمرکس لی ہے‘چین نے بھی اس کو سمجھا دیا ہے کہ ہر کسی کےساتھ شرارت کرنا مہنگا پڑتا ہے‘ چین نے یہ سکھادیا ہے کہ بھارت امن کیلئے میٹھی زبان نہیں بلکہ کانٹے دار لاٹھی چارج کی زبان کو سمجھتا ہے۔