جادوئی کچھوااورٹمپل آف لٹریچر

 میں نے اپنے سفرنامے’ نیو یارک کے سورنگ‘ میں اس شہر کی ایک پہچان درج کی ہے اور وہ ہے ایک جاگنگ کرتی لڑکی جس کی پونی ٹیل اسکی گردن پر ایک گلہری کی مانند اچھلتی چلی جاتی ہے... یہ لڑکی پورے نیویارک میں پائی جاتی ہے‘ صرف سنٹرل پارک میں ہی نہیں‘ ففتھ ایونیو کے فٹ پاتھ پر‘ نیو یارک پبلک لائبریری کے سامنے جوگلی ہے جس کے فٹ پاتھ میں شاعروں اور ادیبوں کی بے مثال شاعری اور نثر کے نمونے آہنی پلیٹوں پر کندہ ہیں‘ یہ لڑکی ان پر جاگنگ کرتی چلی جاتی ہے ٹائمز سکوائر میں‘مین ہٹن میں‘ واشنگٹن سکوائرمیں ہرجگہ دکھائی دیتی ہے‘تحقیق پر معلوم ہوا کہ ان میں سے بیشتر آفس گرلز یا سیلز گرلز ہیں‘ جب بھی چائے یا لنچ کا وقفہ ہوتا ہے وہ فوری طورپرجاگنگ کیلئے نکل جاتی ہےں‘ چاہے یہ لنچ بریک صرف نصف گھنٹے کی ہو‘ پوری دنیا جاگنگ کرتی ہے یہاں تک پاکستان میں بھی جوان کم اور بابا لوگ زےادہ پارکوں میں جاگنگ کرتے نظرآجاتے ہیں‘دنیا میں شاید صرف ایک ملک ہے جہاں کوئی بھی جاگنگ نہیں کرتا‘اور وہ ہے ویت نام... وہ یوں پاگلوں کی طرح بھاگتے جانے کو صحت کیلئے مضر سمجھتے ہیں اور نہ ہی وہ ہماری طرح ڈنڈ بیٹھکیں لگا کر صحت بنانے پر یقین رکھتے ہیںبلکہ وہ سمجھتے ہیں اس نوعیت کی احمقانہ اٹھک بیٹھک سے ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں اگر ویت نامی جاگنگ نہیں کرتے‘ ڈنڈ بیٹھکیں بھی نہیں نکالتے تو پھر وہ اتنے صحت مند اور چست بدن کیسے ہیں‘ وہ صرف حرکت میں برکت سمجھتے ہیں ایک ہی مقام پر کھڑے اپنے بدن کو مختلف زاویوں میں لچکاتے۔

 جھکتے اور دوہرے ہوتے ہیں‘کبھی تلوارسونت لینے کا اندازاختیار کرتے ہیں توکبھی طلوع ہوتے سورج کے سامنے کورنش بجاتے ہیں‘ ورزش کے یہ انداز اسکی قدیم ثقافت کا ایک حصہ ہیں البتہ کچھ خواتین ورزش کے نام پر خوب دنگا فساد کرتی ہیں‘موسیقی کےساتھ یا تو نہایت آہستگی سے اپنے بدن متحرک کرتی ہیں یا پھر کسی امریکی گانے کی تیز دھن پر بے خود ہوجاتی ہیں یعنی بونی ایم کے اب تو بھول چکے گیت” ون وے ٹکٹ ٹو وے مون“ پر میں نے پانچ چھ خواتین کا ایک ایسا گروپ بھی دیکھا جو اوپرا موسیقی پر راج ہنسوں کی مانند رقص کررہاتھا اور ان میں دوخواتین مجھ سے بھی بوڑھی تھیں تو آپ اندازہ لگا لیجئے کہ وہ کتنی بوڑھی ہوں گی...انکے نزدیک ورزش کا مطلب ہے حرکت ... بابا جات اپنے سینے پر ہولے ہولے دو ہتڑ ماررہے ہیں‘ رانوں پر تھپ تھپ کر رہے ہیں رخساروں کو تھپک رہے ہیں لیکن مجال ہے کوئی بھاگتا دوڑتا ہویاڈنڈ بیٹھکیں نکالتا ہو‘ ایک سویر جب ہم ہنوئی کی مرکزی کچھوے والی جھیل کے کناروں پر گئے تو وہاں جیسے پورا ہنوئی امڈ امڈ آیا تھا‘ ہزاروں لوگ حرکت میں برکت والی ورزشیں کررہے تھے اور خواتین موسیقی کی لے پر پریڈ کر رہی تھیں‘ میمونہ میری فی الحال اکلوتی بیگم بھی ایک مہم جو روح ہے... وہ بھی ان خواتین میں شامل ہوگئی اور پریڈ کرنے لگی‘اسکی شمولیت پر ویت نامی خواتین نے نعرہ ہائے تحسین بلند کئے اور پوچھا انڈین؟مونا نے ناک چڑھا کر کہا پاکستانی‘ تو ان خواتین نے موسیقی کی لے کےساتھ پاکستانی پاکستانی شامل کر کے مجھے اور مونا کو خوش کردیا...یہ ہنوئی کے دل میں واقع کچھوے والی جھیل ہر ویت نامی کا دل ہے...

 کہا جاتا ہے کہ ایک ویت نامی شہنشاہ نے ان گنت دشمنوں کو اپنی جادوئی تلوار سے زیر کیا اور ۔مکمل فتح کے بعد اس جھیل کے کناروں پر آکر اپنی تلوار پانیوں میں پھینک دی اور وہ تلوار ایک بہت بڑے کچھوے نے اپنی پشت پر سنبھال لی اور جھیل میں گم ہوگیا... اسی جھیل میں ایک کماندار سرخ پل معلق ہے جو آپ کو کچھوے کے پگوڈے میں لے جاتا ہے اور وہاں ایک معبد کے علاوہ شیشے کے شوکیس میں ایک بہت بڑا کچھوا... کانسی میں ڈھالا ہوا نمائش پر ہے... سیاح اپنی قسمت پر نازاں کہ آج ہم نے اس کچھوے کودےکھ لیا ہے جو جادوئی تلوار سنبھال کر جھیل میں گم ہوگیا تھا‘ ویسے ویت نامیوں کا کہنا ہے کہ یہ صرف ایک دےومالائی داستان نہیں ہے‘ اس جھیل میں چند ایک بہت ضعےف العمر کچھوے رہائش پذیر ہیں اور ان میں اےک پانچ سو برس پرانا ہے‘ کبھی کبھی یہ کچھوے کناروں پر آجاتے ہیں اور لو گ ان کی زیارت کیلئے ٹوٹ پڑتے ہیں...صرف اس امید میں کہ شاید وہ قدیم کچھوا بھی گہرے پانیوں میں سے نمودار ہوگیا ہو جس نے اپنی پشت پر وہ جادوئی تلوار سنبھال رکھی ہو‘ عقیدے اور عقیدت سے بحث نہیں کی جا سکتی کہ اگر آپ بھی اسی عقیدے میں پیدا ہوتے تو وہی عقیدہ آخری سچ ٹھہرتا‘ کھٹمنڈو کے باہر جو بھگتا پور کا قدیم شہر مندروں‘ محلات کا اور ہاتھیوں کا قدیم شہر محفوظ ہے وہاں میں نے ایک اجڑ چکے مندر میں ایک شخص کوگیان دھیان میں گم دیکھا‘ بارہ برس سے وہ یونہی بیٹھا تھا اور اسکے سامنے ایک عام سا بے شکل پتھر تھا جس پر گیندے کے پھول چاول اور دالوں کے چڑھاوے تھے۔

 جب میں نے کچھ سوال کئے تو وہ کہنے لگا... میری پانچ خواہشیں تھیں‘ان میں سے چار اس نے پوری کردیں پانچویں بھی پوری کردےگا‘ تو آپ اس سے بحث کرسکتے ہیں؟ اگرچہ ان کی جانب سے ہمارے عقیدے پر بھی کچھ اعتراض ہو سکتے ہیں مشتعل ہوئے بغیر آپ بھی لاجواب ہو سکتے ہیں تو اگر ہنوئی کی جھیل میں ایک دیوتا سمان کچھوا روپوش ہے تو آپ بحث نہیں کرسکتے... ایک روز ہم ہنوئی کی سب سے قدیم درسگاہ میں گئے یہ ”ٹمپل آف لٹریچر“ کہلاتاہے ایک ہزار برس سے قائم یہ ایک قدیم علوم کی یونیورسٹی ہے... کیا ہمارے ہاںکسی بھی بہت پرانی درسگاہ کے آثار ہیں؟ مجھے اس لئے بھی اس کی زیارت نے طمانیت بخشی کہ یہ شاید دنیا بھر میں واحد ادب کا مندر ہے یہ مندر بہت سجا ہوا ہے بونسائی درختوں سے اور یقین کریں آم کے گھنے شجروں سے جن کی ڈالیوں پر سینکڑوں آم بندروں کی مانند جھولتے ہیں... یہ شاہی باغ کی مانند ایک تختہ بہ تختہ خوش نما قدیم عمارت ہے جس کے آخر میں کنفیوشس کا مندر ہے جہاں ایک سنہری اور قدرے فربہ کنفےوشس حضرت ایک بلند سنگھاسن پر براجمان ہیں... جب سنکیانگ کے سرکاری دورے کے دوران میری مترجم جوائے نے کہا کہ ہم لوگ اپنے بچوں کو سکول میں داخل کروانے سے پیشتر کنفیوشس کے مندر میں سجدہ ریز ہونے کیلئے لے جاتے ہیں تو میں نے پوچھا تھا کہ کیا آپ لوگ اس فلسفی کو خدا مانتے ہیں تو اس نے کہا تھا کہ ہرگز نہیں...

وہ ایک دانشور اور فلسفی تھا سقراط اور ارسطو سے کہیں بلند درجے پر... ہم اپنے بچوں کو اس کے مندر میں صرف اسلئے لے کر جاتے ہیں تاکہ وہ اسکے اقوال پر عمل پیرا ہوں‘ انہیں ترغیب دی جائے کہ تم نے کنفیوشس کی تحریروں کی روشنی سے اپنی آئندہ زندگی کے راستے روشن کرنے ہیں‘ تو’ ٹمپل آف لٹریچر‘ کے معبد میں ایک سنہری اور قدرے فربہ کنفیوشس براجمان تھا ایک زمانہ ایسا آیا کہ کمیونسٹ ویت نام میں چین کی پیروی حضرت کنفیوشس متروک قرار دیئے گئے کہ وہ قدرے بورژوا تھے‘ پرولتاری نہ تھے‘ چنانچہ’ ٹمپل آف لٹریچر‘میں براجمان ان کنفیوشس کو یہاں سے اٹھا کر گودام میں منتقل کردیاگیا اور جب زمانے بدلے تو انہیں جھاڑ پونچھ کر پھر سے اس معبد میں مقام اعزاز دیا گیا‘ ہزاروں برسوں سے کنفیوشس صاحب اکثر متروک ہوتے ہیں اور اکثر پھر سے رائج ہوجاتے ہیں’ اگر تم ایک سال کو پیش نظر رکھو‘ منصوبے بناﺅ ‘توبیج بوﺅ‘ اگر دس برس کو پیش نظر رکھتے ہو تو درخت اگاﺅ‘ اور اگر یہ منصوبہ سو سال پر محیط ہو تو لوگوں کو تعلیم دو‘پڑھاﺅ...