جی ہاں میں بات کر رہا ہوں چین کے اس طوطی کی جوان دنوں اتنا بول رہا ہے کہ کان بہرے ہونے لگتے ہیں ہرجانب چین ہی چین ہے‘ افریقہ میں بندرگاہیں اور ہائی ویز تعمیرکر رہا ہے‘ مہنگی ترین جائیدادیں بھی چینی حضرات خرید رہے ہیں اور ان میں ہالی ووڈ کے کئی سٹوڈیوز بھی شامل ہیں‘ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان دنوں ہر سُو چین کا ڈنکا بج رہا ہے لیکن آج میں ذرا فلیش بیک میں جاتا ہوں ان دنوں میں چلاجاتا ہوں جب چین پر بے خبری کی چادر پڑی ہوئی تھی... امریکہ اور مغربی ممالک ماؤزے تنگ کی اس نوزائیدہ سلطنت کا گلا گھونٹ دینا چاہتے تھے۔ ہانگ کانگ اور تائیوان میں بیٹھے سینئر اور تجربہ کار سیاسی تجزیہ نگار مسلسل رپورٹیں بھیج رہے تھے کہ چین میں قحط پڑگیا ہے روزانہ لاکھوں چینی بھوک سے مر رہے ہیں‘ ماؤزے تنگ روزانہ ہزاروں حریت پسندوں کو موت کے گھاٹ اتاررہا ہے... چواین لائی گھوڑے پر بیٹھ کر غریب کسانوں کو اپنے ہاتھوں سے ہلاک کر رہا ہے وغیرہ وغیرہ... سچی بات ہے دنیابھرکے لوگ اس پروپیگنڈے کی زد میں آگئے‘ اس پر یقین کرنے لگے اور تب ایک امریکی صحافی کی کتاب1937ء میں شائع ہوئی جس کا نام تھا ’ریڈسٹاراوورچائنا‘اور صحافی کانام تھا ایڈگرسنو... یہ صحافی ماؤ کی لانگ مارچ کے دوران اسکے ساتھ چلا اور اس نے ماؤ کی شخصیت کے کرشمے دیکھے... کیسے چند ہزار نظریاتی لوگوں نے ایک مارچ کا آغاز کیا جو سینکڑوں میلوں کی مسافت پر محیط تھی‘ کیسے کیسے دشوار گزار راستوں اور پہاڑوں کوماؤ کی رہنمائی میں عبور کیا اور کیسے مغربی طاقتوں کی پروردہ کٹھ پتلیوں کو شکست دیکر ایک عظیم کمیونسٹ سلطنت کی بنیاد رکھی‘ باہر کی دنیا کو ایڈگرسنو نے خبر کی کہ وہاں آہنی ارادے والا شاعر لیڈر ماؤزے تنگ نام کا ہے اور اسکے ہمراہ ایک اور سپہ سالار چو این لائی بھی ہے... آزادی کے بعد پورے چین میں جس غیر ملکی کی دیوتاؤں کی مانند تعظیم کی گئی وہ امریکی ایڈ گرسنو تھا... اب میں ذرا اگلے زمانوں میں جاتا ہوں اور کچھ دیر بعد بالآخر ایڈگرسنو کی جانب لوٹ آؤنگا‘ جن دنوں چین پر بے خبری کا پردہ پڑا ہوا تھا تو ان زمانوں میں دو ایسی تاریخی کتابیں شائع ہوئیں جنہوں نے اس بے خبری کے پردے کو چاک کرکے دنیا کے لوگوں کو چین کی اصل تصویر دکھائی اور یہ وہ تو نہ تھی جو امریکہ اور یورپ جھوٹ اور منافقت کے برشوں سے دنیا کے نگارخانے میں پینٹ کرتے رہے تھے...پہلی کتاب کا نام تھا ”اے کرٹین آف اگنورنس“ جسکے مصنف کانام مجھے یاد نہیں آرہا‘گوگل کو یادآجائیگا‘اس تحقیقی تجزیاتی کتاب سے میں نے سیکھا کہ کیسے وہ کچھ جو آپکی خدمت میں آخری سچ کے طورپر پیش کیا جاتا ہے‘ اخباروں اور رسالوں میں شائع ہوتا ہے تو کیسے آپ سطروں کے درمیان پوشیدہ سچ کو تلاش کر سکتے ہیں‘ سچ کبھی وہ نہیں ہوتا جو تاریخ میں درج ہوتا ہے اخباروں اور رسائل میں اور ٹیلی ویژن پرمسلسل نشر ہوتاہے بلکہ آپ اپنی دماغی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر خود سطروں کے درمیان میں پوشیدہ سچ تک پہنچ جائیں‘ان زمانوں کے سب سے پسندیدہ باتصویر میگزین”لائف“ کے سرورق پر ایک تصویر شائع ہوتی ہے‘ متعدد ہل چلاتے چینی دہقان ایک قطار میں چلے جاتے ہیں اور ہر ایک کے گلے میں ایک تختی آویزاں ہے جس پر بقول لائف کے ان کے جرائم درج ہیں‘ ماؤ نے انکے گلوں میں غلامی اور جرم کے طوق ڈال رکھے ہیں ”کرٹین آف اگنورنس“ میں یہ تصویر بھی موجود تھی اور لکھا تھا کہ... اگر کوئی بھی شخص چینی زبان سے آگاہ ہے توان تختیوں پر اس زبان کی الف ب پ لکھی ہوئی ہے جرائم کی تفصیل نہیں‘ ماؤچین کے دہقانوں کو تعلیم بالغاں کے منصوبے کے تحت پڑھا لکھا کرنا چاہتا تھا اور یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ وہ کاشتکاری ترک کرکے صرف تعلیم حاصل کرنے لگیں تو اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ہر دہقان کے گلے میں چینی حروف کی الف ب کی تختی آویزاں ہے اور وہ اسکی کمر پر ہے... چنانچہ اس کے پیچھے جو دہقان ہے وہ ہل چلانا بھی موقوف نہ کرے اور اپنے سامنے کے دہقان کی پشت پر جو تختی آویزاں ہے اسے پڑھتا یاد کرتا چلا جائے اس نوعیت کی امریکہ اور مغرب کی دھوکا گری اور فریب کی بے شمار مثالیں تھیں...... چین کا اصل چہرہ دکھانے والی دوسری کتاب مشہور اطالوی ناول نگار البرتو موراویا کے ایک طویل انٹرویو پر مبنی کتاب ہے‘ اور اس کتاب کا نام ہے”دے وال ہیز ٹو سائیڈز“ یعنی ایک دیوار کے دورخ ہوتے ہیں اور یہ دیوار چین کی جانب اشارہ ہے‘ البرٹوموراویا جسے ہم میں سے کچھ اسکے شہرہ آفاق ناول”وومن آف روم“ کے حوالے سے شاید جانتے ہوں جس پر مبنی فلم میں صوفیہ لورین نے نہ صرف اپنی باکمال اداکاری سے بلکہ اپنے بے مثال بدنی کرشمے سے ہم سب کو متاثر کیا تھا... البرتوموراویا چین گیا اور جب واپس آیا تو چینی انقلاب کے سحر میں مبتلا آیا وہ ماؤزے تنگ کی شخصیت اور نئے چین کے انقلابی جذبے سے بے پناہ متاثر ہوا”دے وال ہیز ٹو سائیڈز“ کے طویل انٹرویو کے دوران ایک صحافی نے سوال کیا اور یاد رہے کہ اس انٹرویو میں جتنے بھی صحافی تھے وہ سب کے سب چین کے نظام سے نفرت کرتے تھے تو اس ایک صحافی نے سوال کیا کہ البر تو... آپ چین کے لوگوں کی انقلابی سوچ اورنظام کی توصیف کرتے ہو تو یہ بتاؤ کہ کیا وہاں غربت نہیں ہے؟ البرتو نے کہا”بہت غربت ہے‘ تو پھر ایسے انقلاب کا فائدہ“البرتو نے اس کے جواب میں کہا وہ تاریخ کا ایک حصہ بن چکا ہے اس نے کہا”چین میں غربت تو ہے لیکن اس غربت سے عزت نفس مجروح نہیں ہوتی جو کہ مغرب میں ہوتی ہے... وہاں غربت اور امارت کے درمیان موازنہ نہیں ہے‘ ہر کوئی ایک ہی معمولی لباس پہنتا ہے معمولی خوراک کھاتا ہے‘ کسی کے پاس کار نہیں‘ زیادہ سے زیادہ سائیکل ہے‘ ایک ہی نوعیت کے جوتے پہنتے ہیں... ماؤزے تنگ اور چواین لائی بھی وہی عامیانہ کھردرا لباس پہنتے ہیں جو کروڑوں چینیوں کا پہناوا ہے... چنانچہ مغرب کی مانند وہاں موازنہ نہیں ہے جو تمہیں احساس کمتری میں مبتلا کردے چنانچہ ان کی غربت میں عزت نفس ہے“یاد رہے البرتو موراویا ایک کمیونسٹ نہ تھا لیکن ایک باضمیر ادیب تھا اس نے چین میں جو دیکھا اسے بیان کردیا‘ البرتو نے اس انٹرویو میں کیپٹل ازم کی جس طور تعریف کی ہے پورے نظام کو ایک قصے میں ڈھال دیا ہے وہ تو حیرت انگیز ہے۔