مشتاق احمدیوسفی نے ”آب گم“ کے دیباچے میں لکھا ہے”جب انسان کو ماضی‘ حال سے زیادہ پرکشش نظر آنے لگے اور مستقبل نظر آنا ہی بند ہو جائے تو باور کرنا چاہئے کہ وہ بوڑھا ہوگیا ہے“ اس کلیے کے مطابق میں بوڑھا نہیں ہوں‘ میں اپنے حال سے بے حد خوش ہوں‘ ماضی مجھے حال کی نسبت ہر گز پرکشش نظر نہیں آتا اور مستقبل کے بارے میں میں پرامید ہوں‘ اگر مستقبل مجھے نظر نہیں آتا تو شاید میری عینک کا نمبر تبدیل ہونے والا ہے اور یوں بھی عمر میں اتنی گنجائش باقی نہیں ہے کہ مستقبل کے بارے میں فکر مند ہوتا پھروں ہاں اپنی اولاد کیلئے فکرمند ہوتا ہوں جو کہ والدین کا فل ٹائم مشغلہ ہوا کرتا ہے‘ میں اپنے ہم عمر بزرگوں‘ بابوں اور عمررسیدہ دوستوں میں زیادہ مقبول نہیں کیونکہ میں انکے عمر بھر کے تجربوں کے نچوڑ سے اتفاق نہیں کرتا...کچھ مدت پہلے ایک پرانے سکول فیلو نے نہایت عرق ریزی اور بھاگ دوڑ سے اور کھوج کرکے ہماری کلاس کے درجن بھر ابھی تک زندہ”لڑکوں“ سے رابطہ کر کے ایک عدد اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے قیام کا اعلان کر دیا...پہلی میٹنگ میں عجیب مزاحیہ قسم کی صورت حال پیدا ہوگئی کہ وقت کے پلوں تلے سے بہت سے پانی بہہ گئے تھے اور انکے ساتھ ہماری شکلیں‘ شوخیاں اور جوانی بہہ گئے تھے چنانچہ ہم پہچانے نہ گئے...یوں بھی ہر بابا اپنے آپ کو معزز اور دانش مند ثابت کرنے کیلئے فری ہونے سے گریز کر رہا تھا... اس اجتماع میں دس دبیز عینکیں‘ تین لرزش میں آئے ہوئے سر”ایک جھکی ہوئی کمر...دو لاٹھیاں اور دو بیساکھیاں شامل تھیں.....اب آپ ہی انصاف کیجئے کہ ہم ایسے گیٹ اپ میں اپنے سکول کے زمانے کے لڑکوں کو کیسے تلاش کر لیتے بہر حال تفصیلی تعارف ہوا‘ کچھ پہچانے گئے اور کچھ کی پہچان نہ ہو سکی لیکن آہستہ آہستہ دھند چھٹنے لگی اور چہرے شناسا ہونے لگے...دبے دبے لفظوں میں سکول کے زمانے کی شرارتوں کا تذکرہ ہوا تو انکے حوالے سے کچھ لوگ دیکھے ہوئے لگے...یہ عمل خاصا پیچیدہ تھا کہ پہلے یہ جو بابا جی ہیں انکے سر کی لرزش کو قابو میں کیا جائے ان کی داڑھی مونچھیں صاف کی جائیں ان کے گنجے سر پر کچھ گھنے بال کاشت کئے جائیں اور پھر اوئے تو اشرف کالیا ہے ناں...جو ماسٹر صاحب کا ٹفن کیرئیر چوری کر کے ان کا کھانا کھا جاتا تھا...پی ٹی ماسٹر کو ہر ہفتے شربت کا گلاس پلاتا تھا اور وہ تجھے مارتے نہیں تھے‘ وہ اب ایک معزز شخص ہو چکا تھا‘ کسی پرائیویٹ کالج میں پارٹ ٹائم پروفیسر تھا‘ وہ ان حقائق سے انکار تو نہیں کر سکتا تھا لیکن شاید اسے ماضی کی یہ جھلکیاں زیادہ پسند نہ آئیں اور اس نے نہایت بردباری سے داڑھی کو سنوارتے ہوئے کہا...بھئی بچپن میں اس نوعیت کی لغزشیں ہو ہی جاتی ہیں‘ میرا خیال ہے اب ان کا ذکر مناسب نہیں ہمیں اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہئے... ان اولڈ بوائز میں ایک شرمیلا سا بابا تھا جو اس گفتگو کو بے حد انجوائے کر رہا تھا وہ کہنے لگا‘ یار ہم لوگ یہاں اکٹھے ہی اسلئے ہوئے ہیں تاکہ سکول کے زمانوں کو یاد کریں...یوں بھی ہم کیسے ایک دوسرے کو شناخت کرینگے اگر ان دنوں کے حوالے نہیں دینگے...میرا خیال ہے میں خود اپنا تعارف کرواتا ہوں...میں مدھو بالا ہوں‘ ہر جانب ایک سنسنی خیز مسرت پھیل گئی‘ ساری نظریں شرمیلے بابے پر ٹھہر گئیں...اوئے تو اقبال ہے‘ تو...مدھو بالا ہے...اور واقعی جب میں نے غور کیا تو وہ مدھو بالا ہی تھا...اگرچہ اس کے چہرے پر بڑھاپے کے سائے گہرے ہو رہے تھے لیکن اس کا رنگ ابھی تک گورا تھا‘ آنکھیں بڑی بڑی تھیں بے شک خزاں رسیدہ تھیں‘ اقبال ہماری کلاس کا سب سے خوبصورت لڑکا تھا اور قدرے شرمیلا تھا...بے حد لائق اور مہذب تھا جو کہ ہم نہ تھے..اقبال سول سروس کے ایک اعلیٰ عہدے پر ریٹائر ہوا تھا اور اسی لئے اس میں ایک خاص نوعیت کا اعتماد تھا...یکدم اقبال اشرف کالیے سے مخاطب ہو کر کہنے لگا...اوئے کالیے تو بھی تو مجھے خط لکھا کرتا تھا...اخباروں میں سے مدھو بالا کی تصویریں کاٹ کاٹ کر مجھے بھیجا کرتا تھا لیکن میں نے تمہاری شکایت ماسٹر صاحب سے کبھی نہ کی...یاد ہے؟...اشرف کالیے کی تو حالت غیر ہوگئی لیکن وہ اب معزز لبادے میں سے باہر آکر ذرا کھلنڈرا ہونے لگا‘ اوئے اقبال... قسم لے لو جو میں نے تمہیں پہچانا ہو...پچپن برس ہوگئے تمہیں دیکھے ہوئے... کیا حال ہے یار...“ اقبال کے کھلے اعتراف کے بعد کہ وہ مدھو بالا ہے بقیہ اولڈ بوائز بھی ذرا فرینک ہوگئے اور ان میں ظفر ڈھینگر بھی شامل تھا اگرچہ وہ اب ڈھینگر نہ رہا تھا ایک خاصا فربہ اور تنومندبوڑھا تھا... وہ نہایت منحنی اور لمبا سا لڑکا ہوا کرتا تھا اس لئے ڈھینگر کہلاتا تھا‘ اس کا کمال یہ تھا کہ وہ مار کھانے میں چیمپئن تھا‘ شرارتیں کرنے میں اس کا جواب نہ تھا اور جب ماسٹر صاحب سے مار کھاتا تو مسکراتا رہتا...وہ ہانپ جاتے تب بھی کھڑا رہتا کہ اچھا جی بس...ظفر ڈھینگرکی ایک اور خصوصیت تھی‘ وہ سائیکل پر الٹا بیٹھ کر اسے چلا سکتا تھا غرض کہ بہت سی خوبیوں کا مالک تھا‘ علاوہ ازیں خلیفہ نثار بھی موجود تھا‘ وہ ہم سب سے بڑا تھا اور بیساکھیوں کے سہارے بمشکل آیا تھا...وہ ایک ارب پتی کاروباری تھا‘ آٹھویں جماعت میں وہ اتنی مدت اٹکا رہا کہ نہ صرف اس کے کلاس فیلو بلکہ پیچھے سے آنے والے طالب علم بھی کالج میں جاداخل ہوئے اور وہ آٹھویں جماعت کا طالب علم ہی رہا‘ غالباً اسی کلاس سے ریٹائر ہوا... میں کسی حد تک خوش قسمت تھا کہ ٹیلی ویژن اور ادب کے حوالے سے سبھی لوگ مجھے آسانی سے پہچان لیتے تھے...اول اول تو سب لوگ میری شہرت سے مرعوب رہے‘ پھر کھلنے لگے اور بالآخر میری بھی شامت آگئی...”یار تارڑ ٹھیک ہے تو اب بڑا مشہور ہوگیا ہے اور ہم فخر سے کہتے ہیں کہ تو ہمارا کلاس فیلو ہے لیکن...تم ہو تو پاگل نگر...کیا خیال ہے...اس پر اقبال مدھو بالا نے ذرا جھجکتے ہوئے کہا...پاغل ای اوئے... میں یکدم طیش میں آنے لگا اور پھر اپنے آپ پر قابو پالیا کہ تم جو لوگوں کی بچپن کی پگڑیاں اچھال رہے ہو تو بھلا تمہاری پگڑی کیسے سلامت رہ سکتی ہے ویسے تم پاگل نگر تو ہوا کرتے تھے ناں...تفصیل اسی اجمال کی کچھ یوں ہے کہ ہر جمعہ کے روز ہماری کلاس کے پہلے پیریڈ میں بزم ادب کا ایک جلسہ ہوتا تھا جس کی صدارت ایک منتخب صدر کیا کرتا تھا‘ اس اجلاس میں طالب علم اپنی تخلیقات پیش کرتے تھے اور میں اکثر اس میں کسی نہ کسی صورت حصہ لیتا تھا‘ کبھی کوئی کہانی پڑھ دی‘ کبھی کوئی اپنے تئیں مزاحیہ تحریر پیش کر دی لیکن جس تخلیق سے مجھے پورے سکول میں شہرت دوام حاصل ہوئی وہ ”پاگل نگر کی خبریں“ کا آئٹم تھا...میں یونہی اوٹ پٹانگ سی خبریں بنا کر انہیں ریڈیو پر نشر ہونے والی خبروں کے انداز میں بھاری نستعلیق آواز میں سنایا کرتا تھا چنانچہ جدھر جاتا”پاگل نگر“ کے نعرے لگتے پھر کسی ناہنجار نے اختراع کر کے مجھے”پاغل ای اوئے“ کے نعرے سے نوازا اور یہ نعرہ قبول عام کی سند حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا چنانچہ جہاں جاتا پیچھے سے”پاغل ای اوئے“ کے نعرے لگنے لگتے...