ان دنوں توچاردانگ عالم میں بقول کسے چین کا طوطی بول رہا ہے اور صاحبو ایک نہیں چین کے تو سینکڑوں طوطی بول رہے ہیں‘ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی اتنے طوطی بول رہے ہیں... میرا طوطوں کے بارے میں علم قدرے محدود ہے لیکن پلیز کوئی صاحب طوطا علم مجھے آگاہ کردے کہ کیا یہ والے طوطے جو توتے ہوتے ہیں میاں مٹھو ہوتے ہیں تو کیا انکی صنف مخالف طوطی کہلاتی ہے یا پھر یہ طوطی جو بولتا ہے کوئی اور طوطی ہے... یعنی بقول سلیم کوثر میں طوطا ہوں کسی اور کا... میری طوطی کوئی اور ہے... بہرحال چین چھاگیا ہے صاحبو... واحد ملک ہے جس کا امریکہ صاحب بہادر مقروض ہے اور چین پچھلے قرض کا تقاضا نہیں کرتا امریکہ کے عام لوگوں کیلئے روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء مسلسل سپلائی کررہا ہے... نہ کرے تو ان اشیاء کی قیمتیں تین گنا زیادہ ہو جائیں اور امریکی بغاوت کردیں.. پچھلے دس بارہ برسوں میں متعدد بار امریکہ گیا اور میں حلفیہ بیان دیتا ہوں کہ ائرپورٹ پر امیگریشن افسر نے ہمیشہ دوچارمنٹ میں مجھے فارغ کردیا... پاسپورٹ پر چھ ماہ قیام کا ٹھپہ لگادیا اور کہا سرمجھے امید ہے کہ آپ اپنے قیام سے لطف اندوز ہونگے یہ رتبہ بلند جسے مل گیا سو مل گیا... میں حسب عادت ہر صبح نیویارک میں جوگرچڑھا کر اپنے بیٹے سلجوق کے فلیٹ سے نکل کر سیر کیلئے نکل جاتا... سیر کے اختتام پر کسی مناسب ریستوران میں ناشتہ بھی کرلیتا اور یوں گھر واپسی پر میری بہو میرا والہانہ استقبال اسلئے کرتی کہ شکر ہے سسر صاحب ناشتہ کرآئے ہیں ورنہ میں ان بابا جی کیلئے کہاں پنیر کا آملیٹ وغیرہ تیار کرتی...تو ایک روز میں سنٹرل پارک میں سیر کرکے گھر کیلئے لوٹنے لگا تو محسوس ہوا کہ کچھ بوجھ سا بڑھ گیا ہے... فراغت کا تقاضا کرتا ہے اور فی الفور فراغت کا طلبگار ہے...سنٹرل پارک میں کوئی ایسا مقام نہ ملا جہاں میں کھلے عام پاکستانی کی مانند اس آبی فرض سے سے سبکدوش ہو سکتا... ادھر ادھر سے پوچھا تو بھی کسی مقام کی نشاندہی نہ ہوسکی تب میں نے”پلے بوائے“ کے دفتر کے باہر کھڑے ایک نہایت فربہ گارڈ سے پوچھا کہ...معاف کیجئے ادھر کہیں کوئی ٹائلٹ ریسٹ روم وغیرہ ہے تو وہ کچھ بڑبڑایا... کہ... ففتھ ایونیو پرٹمپ ٹمپ ٹاور... یعنی ففتھ ایونیو پر ٹرمپ ٹاور ہے وہاں چلے جاؤ اور یاد رہے ان زمانوں میں آقا ٹرمپ کو گمان بھی نہ تھا کہ کبھی وہ وائٹ ہاؤس میں گھس جائیگا... ففتھ ایونیو پر واقع ٹرمپ ٹاور کی عمارت آسمان سے باتیں کرتی تھی... میں نے غور سے نہیں سنا کہ کیا باتیں کرتی تھی‘ میں اسکے اندر داخل ہوا تو اسکا اندرون بے حد ٹھرکیلا اور واہیات تھا... جیسے نودولتیوں کے عالی شان گھر ہوتے ہیں امارت کا ٹھرکیلا پن‘ ذوق جمال سے عاری... بہرطور میں اس سویر ٹرمپ صاحب کا شکر گزار ہوا‘ ان کے ٹاور کے ایک غسل خانے میں قدم رنجہ فرما کر اپنے آپکو دل کھول کر فارغ کیا‘ اب سوچتا ہوں تو اپنی قسمت پر نازاں ہوتا ہوں کہ کہاں میں اور کہاں یہ مقام... میں وہ ہوں جس نے کبھی سابقہ صدر امریکہ کے تعمیر کردہ غسل خانے میں فراغت حاصل کی تھی‘ امریکہ کے سپرسٹورز اور شاپنگ مال میں‘ گلیوں بازاروں میں تقریباً ہرشے”میڈان چائنا“ ہے لطف تب آیا جب میں نے لیڈی لبرٹی یعنی مجسمہ آزادی کی زیارت کرنے کے بعد سونیئر کے طوپر ایک سٹال سے مجسمہ آزادی کی ایک بالشت بھر نقل خریدی اور اسکے پیندے میں بھی”میڈ ان چائنا“ لکھا تھا... انہی دنوں امریکی اخباروں میں ایک کارٹون شائع ہوا کہ ایک صاحب ابراہم لنکن کے جہازی سائز کے مجسمے کو ایک کونے سے پکڑ کر اسے اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں تو ایک مسلح گارڈ پوچھتا ہے کہ یہ تم کیا کر رہے ہو! تو یہ صاحب کہتے ہیں کہ میں لنکن کے مجسمے کے نیچے جھانکنے کی کوشش کر رہاہوں کہ کہیں اس کے پیندے میں بھی”میڈان چائنا“ تو نہیں لکھا ہوا‘ امریکہ پر کیا موقوف دنیا بھر میں یہ چین ہی ہے جو چین کی نیند سوتاہے کہ اسکی مصنوعات بیدار ہیں اور ہر سوراج کرتی ہیں چلئے دور کیوں جانا اپنی چارپائی کے نیچے ڈانگ پھیر لیتے ہیں‘ لاہور کی شاہ عالمی مارکیٹ میں چینی خواتین خوانچے لگائے بیٹھی ہیں... یہاں تک کہ برانڈرتھ روڈ پر بھی چینی حضرات کانزول ہوچکا ہے اظہار الحق نے مستقبل کے پاکستان کا جو چینی نقشہ کھینچا ہے اسکی ابتدا ہو چکی ہے اگلے روز کارریڈیو کے بٹن دبائے تو وہاں اردو میں ایک چینی چینل کی چوں چوں ہو رہی تھی‘ چینی تاریخ اور زبان کی فضلیت بیان ہو رہی تھی میرے ایک دوست جو بیورو کریسی میں بہت اعلیٰ مقام رکھتے ہیں اور اکثر کوریا اور چین وغیرہ سرکاری طورپر جاتے رہتے ہیں انہوں نے ایک خفیہ بات کی تو آپ سے کیا پردہ‘ کہنے لگے تارڑ صاحب ایک زمانہ آنے کو ہے جب آپ امریکیوں کو یاد کرینگے امریکی جہاں جاتے ہیں کبھی نہ کبھی واپس چلے جاتے ہیں چینی جہاں جاتے ہیں وہاں سے واپس نہیں آتے... نہ سنکیانگ سے‘ نہ تبت سے‘ واپس نہیں جاتے... میں ان دنوں کی جانب لوٹتا ہوں جب چین کا طوطی منقار زیر پر تھا... بولتا ہی نہ تھا... بولتا توامریکہ اور مغرب اسکی گیچی گھونٹ دیتے‘ کسی کو کچھ پتہ نہ تھا کہ چین کہاں ہے کیا ہے‘ کیوں ہے اور ایک لانگ مارچ کے بعد ماؤزے تنگ نام کے ایک شخص نے پورے چین کو فتح کرکے چیانگ کائی شیک کو شکست دی ہے اور وہ فرار ہو کر فارموسا چلا گیا ہے وہاں امریکیوں کی ہلاشیری سے تائیوان نام کا ایک الگ چین قائم کرلیا ہے... ان زمانوں میں ایک امریکی صحافی ریڈگرسنو کی کتاب”ریڈ سٹاراوورچائنا“ شائع ہوئی جس نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا... میرے پاس اسکا پہلا ایڈیشن آج بھی کہیں موجود ہے...