ایک طویل مدت کے بعد میں سویر سیر کیلئے باغ جناح میں گیا تو مجھے ڈیفنس ڈی مورئر کے شہر آفاق ناول ربیکا کا خوابناک آغاز یاد آنے لگا کہ پچھلی شب میں نے مینڈر لے کی پرانی رہائش کو خواب میں دیکھا ایک دھند میں ڈوبا ہوا اس کا آہنی پھاٹک کھلتا جارہا ہے تو یونہی مجھے احساس ہوا کہ اس سویر بھی جیسے ایک خواب میں باغ جناح کا کب سے مجھ پر مقفل ہوچکاقدیم دروازہ میرے لئے کھلتا جارہاہے اور میں اس کے اندر داخل ہورہا ہوں اور گزشتہ وقتوں کی پرچھائیاں دھند میں سے ظاہر ہوتی چلی جاتی ہیں جن زمانوں میں میرا قیام لکشمی مینشن میں تھا تو میں تب بھی صبح سویرے بیدار ہوکر کبھی اپنے سکوٹر پر سوار ہوکر اور اکثر ایک جاگنگ سوٹ میں ملبوس ریگل چوک سے جاگنگ کرتااس جادوئی سرسبز محل میں داخل ہوجاتا تھا‘ ماڈل ٹاؤن پارک میں صبح کی سیر کے کچھ دوست بھی میرے ساتھ چلے آتے اگرچہ ان میں سے بیشتر وہاں سیر کرنے کے بعد رائل پارک میں بٹ صاحب کی حلوہ پوری شاپ اور بادی پہلوان کی دودھ لسی کی دکان پر حاضری دینے کیلئے زیادہ بے چین تھے‘ سچ کہتا ہوں بے چین تو میں بھی تھا۔
میرے اباجی کے ایک قریبی دوست اندرون شہر کے محلہ ککے زئی کے رہنے والے ملک محمد رفیع جو نیو ماڈرن پریس کے مالک تھے جب میں لکشمی مینشن سے گلبرگ شفٹ ہوا تو کہنے لگے ’مستنصر پہلے تو تم لارنس گارڈن میں سیل کرتے تھے اب کہاں کرتے ہو؟ تو میں نے کہا ’چاچا جی اب میں لبرٹی پارک یا ماڈل ٹاؤن پارک میں سیرکرتا ہوں تو انہوں نے رنجیدہ ہوکر کہا’مستنصر‘سیر اور سیل میں بہت فرق ہوتا ہے جن دنوں لاہور کی ڈھے چکی فصیل کے باہر دریائے راوی سے جنم لینے والی ایک چھوٹی سی نہر پورے شہر کا احاطہ کرتی تھی تو لوگ وہاں سیل کرتے تھے وہ ختم ہوگئی تو اب اہل لاہور لارنس گارڈن میں سیل کرتے ہیں یہ جو نئے نئے باغ باغیچے ہیں ان میں لوگ سیر کرتے ہیں سیل نہیں کرتے‘ دیکھو لارنس گارڈن میں لوگ ٹہلتے ہیں‘موج میلہ کرتے ہیں‘چڑی چھکا کھیلتے ہیں‘ پرندوں کو دال دانہ ڈالتے ہیں گپ شپ لگاتے ہیں جبکہ ان نئے پارکوں میں تو افراتفری مچی ہوتی ہے لوگ منہ اٹھائے بھاگتے جاتے ہیں‘نہ کسی سے بات کرتے ہیں اور نہ ہی ڈنڈبیٹھکیں لگاتے ہیں اور سب کے سب یوں ڈریس اپ ہوکر آتے ہیں جیسے کسی فیشن شو میں آئے ہوں چڑی چھکا بھی نہیں کھیلتے‘چنانچہ لارنس گارڈن میں لوگ سیل کرتے ہیں اور ان گنجے منجے پارکوں میں لوگ سیر کرتے ہیں اور چاچا رفیع واقعی درست کہتے تھے جناح باغ میں کسی کو کوئی کام نہ تھا مزے سے ٹہلتے تھے بچوں کیساتھ بیڈمنٹن کھیلتے تھے اور پرندوں کو دانہ دنکا ڈالتے تھے جگہ جگہ محفلیں بھی ہوتی تھیں۔
ایک صاحب ہر آنے جانیوالے کو باداموں کا شربت پیش کررہے تھے گویاراوی چین ہی چین لکھتا تھا میں دوستوں کو اپنے ماضی کے دھندلکوں میں لے جانا چاہتا تھا کہ دیکھو یہ ہے وہ گھنا شجر جسکی گھناوٹ میں پوشیدہ ایک نامعلوم پرندہ مجھ سے باتیں کیا کرتا تھا‘ انتظار حسین بھی باقاعدگی سے آیا کرتے تھے اور میں نے اس پرندے کے سامنے انتظار کی ملاقات بھی کروائی تھی‘پارک کے باہروہ قدیم ریستوران اب بھی موجود تھا جہاں آج سے تقریباً ساٹھ برس پیشتر چاچا رفیق تارڑ کے بڑے بھائی سلیم تارڑ نے مجھے میری زندگی کی سب سے پہلی ٹوٹی فروٹی آئس کریم کھلائی تھی‘مجھے وہ جگہ اب بھی یاد ہے جہاں ہم بیٹھے تھے اور میرے حلق میں آئس کریم کے آسمانی ذائقے گھلنے لگے‘ میں نے سیر کرتے ہوئے لونگ کی ایک جھاڑی سے ایک نرم شاخ کو توڑا اوراسے مسواک کی مانند چباتا چلنے لگا لونگ کی تازہ خوشبو نے میرے ذہن کو معطر کر دیا ہم ترت مراد کے مزارکے قریب ہوتے تو یکدم باغ سے ملحق گھر میں ایک شیردھاڑنے لگا مجھے تو لطف آ گیا کہ میرے جوانی کے زمانوں کی پکار تھی ان دنوں شہر لاہور بہت چپ اور خاموش ہوا کرتا تھا نہ ٹریفک کا اژدھام تھا نہ کوئی شورنہ کوئی غل تھا تو چڑیا گھر میں شیردھاڑتا تو لکشمی مینشن کے فلیٹ کے میرے کمرے میں اسکی گرج یوں سنائی دیتی جیسے وہ میرے بستر کے سرہانے بول رہا ہے۔
ملک سرفراز کہنے لگاتارڑ صاحب اگر یہاں چڑیا گھر میں بولنے والے شیر کی آواز سے کلیجہ دہل جاتا ہے تو جب یہ اپنے گھنے جنگل میں دھاڑتا ہو گا تو بندے پر کیاگزرتی ہو گی‘ میں نے اپنے ساتھی کوبتایا کہ ذرا دیکھو یہی وہ خشک ہو چکی آبشار ہے جس پرایک پل ابھی بھی موجود ہے جناح باغ کی سویروں میں اگر خوش رنگ طیور چہکتے ہیں تو ان میں چمگادڑوں کی مسلسل چیں چیں کی دل خراش آوازیں بھی شامل ہوتی ہیں داخلے کے دائیں جانب دو تین نہایت ہی قد آور درخت کھڑے ہیں جہاں کم از کم نصف صدی سے تو میں بھی دیکھ رہا ہوں سینکڑوں چمگادڑیں ان کی شاخوں سے لٹکتی نظرآتی ہیں‘ ویسے ان چمگادڑوں کی ہول بھری پکاریں بھی جناح باغ کی بڑی نشانیوں میں سے ہیں بلکہ میرے پوتے آکر جناح باغ کی سیر پرمائل ہو تے ہیں تو وہ کہتے ہیں! دادا ہمیں بیٹس یعنی چمگادڑوں والے باغ لے چلو یعنی ممکن ہے کہ وہ میرا واہمہ ہو لیکن چمگادڑیں کم ہوتی جاتی ہیں کھوج کیجیے کہ کہاں جاتی ہیں‘ چمگادڑیں شنید ہے کہ خون پیا کرتی ہیں۔چڑیا گھر کی جانب سے ایک مرتبہ شیر کی گونجدارگرج جناح باغ کے قدیم درختوں میں پوشیدہ پرندوں کو خوفزدہ کر گئی۔ یہ بھی میرا وہمہ تھا کہ شیر کی آواز میں بھی وہ دم خم نہ تھا۔ قدرے گھگھیائی ہوئی تھی جیسے فریاد کر رہی ہو‘ ہو سکتا ہے چڑیا گھر کی انتظامیہ نے اسے نااہل قراردے دیا ہو۔