نصیب کی بات

 انسان اپنی محنت اور جدوجہد سے بہت کچھ حاصل کرسکتا ہے لیکن کچھ سعادتیں ایسی ہوتی ہےں جو صرف نصیب اور مقدر سے ہی مل سکتی ہیں‘ہماری محبوب شخصیت میجر عامر اس لحاظ سے دونوں حوالوں کے فاتح ہیں‘ ان کو اللہ نے عظیم والدین عطا کئے اور پھر خود انہوں نے اپنے جذبے اور محنت سے بھی دنیا میں وہ کچھ حاصل کیا جو کسی کا بھی خواب ہو سکتا ہے‘ ان کو مزید سعادت یہ حاصل رہی کہ اپنے والدین کی خدمت کا موقع ملا اور اس کے بعد اپنے والد حضرت شیخ القرآن مولانا محمد طاہر کے شاگردوں‘ ساتھیوں اور جانشینوں کی خدمت کا بھی خوب موقع ملا ‘انہوں نے گزشتہ روز حضرت شیخ القرآن کے مخلص ساتھی اور ان کے مشن کے محافظ محترم شیخ عبدالجبار کے اعزاز میں اپنے پنچ پیر کے گھر میں الوداعی دعوت دی‘ یہ حسن اتفاق ہی تھا کہ اس دن دنیا بھر میں والد کا دن منایا جا رہا تھا خیر یہ تو ان معاشروں کیلئے ہے جہاں ماں یا باپ کیلئے سال میں ایک دن ہوتا ہے جس دن اولاد ان سے کسی تہنیتی کارڈ یا پیغام کے ذریعے نیک خواہشات کا اظہار کرتی ہے‘ ہمارے لئے تو ہر دن والدین کا دن ہوتا ہے لیکن اس رسمی یوم پدر پر میجر عامر اپنے عظیم والد کے قریبی ساتھیوں کی تکریم کرتے ہوئے مسرور ہو رہے تھے‘ شیخ عبدالجبار گزشتہ12 سال سے دارالقرآن پنج پیر میں درس وتدرس کا فریضہ ادا کر رہے تھے شاید پیرانہ سالی اور صحت کے مسائل کے باعث گزشتہ روز وہ دارالقرآن سے اپنے آبائی گھر باجوڑ منتقل ہو رہے تھے اس لحاظ سے ان کے اعزاز میں الوداعی تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا اس موقع پر شیخ القرآن کے بڑے فرزندحاجی محمد صابر‘ شیخ القرآن کے دیرینہ ساتھی مفتی سراج الدین‘ مولانا مسیح اللہ اور حاجی خلیل الرحمن سمیت دےگر علماءموجود تھے‘ کسی بزرگ سے الوداعی ملاقات مغموم کرنے کا موقع ہوتا ہے مگر میجر عامر اس پر شاداں تھے کہ انہوں نے ایک بلند پایہ عالم دین اور مدرس و مبلغ کی خدمت کی اور آج وہ اپنی خواہش پر خوشی خوشی واپس جا رہے ہیں۔

 میجر عامر کیلئے علماءاوربالخصوص اپنے والد کے ساتھیوں کی عزت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ12سال دارالقرآن میں تدریس کے دوران شیخ عبدالجبار میجر عامر کے ذاتی گھر میں مقیم رہے حالانکہ اساتذہ کےلئے رہائش گاہیں موجود ہیں‘ اس موقع پر میجر عامر نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ شیخ عبدالجبار جیسے مخلص علماءاور ساتھی ہی اصل میں شیخ القرآن کے جانشین ہیں ‘ان حضرات نے والد محترم کا اسوقت ساتھ دیا جس وقت حالات مشکل اور مخالفین کثیر تھے لیکن شیخ القرآن نے توحید اور سنت کا علم بلند کئے رکھا اور مخلص ساتھیوں کی مدد سے دارالقرآن کے ذریعے اشاعت وتبلیغ کا کام جاری رکھا‘آج یہ پورا ایک تناور درخت بن چکا ہے‘ یہ مقام تشکر ہے لیکن اس پھل کو مضر وائرس و کیڑے مکوڑوں اور ٹڈی دل سے بچانا بہت ضروری ہے‘ اشاعت و تبلیغ کا مشن کٹھن ضرور ہے مگر اس کے پھل کی مٹھاس دنیا سے زیادہ آخرت میں راحت جاںہوگی‘دارالقرآن خیبرپختونخوا کے زرخیز علاقے پنچ پیر صوابی میں ایک ایسامرکز ہے جو شیخ القرآن مولانا محمد طاہر نے شروع کیا آج ان کی محنت کا ثمر ہے کہ اس ادارے اور مشن کے متعلقین نہ صرف خیبرپختونخوا بلکہ دنیا بھر میں موجود ہیں ‘ اس ادارے کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ اس کو چلانے کیلئے شیخ القرآن کی اولاد اپنے وسائل خرچ کرتی ہے کسی سرکاری فنڈ یا انفرادی چندہ کو قبول نہیں کیا جاتا‘ یہی وجہ ہے کہ حق بیانی میں کسی مصلحت کا شکار نہیں ہواجاتا اور میجر عامر کو یہ سعادت بھی حاصل ہے کہ دارالقرآن کے مصارف میں ان کا حصہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔