یوں تو دوستیوں میںخود غرضی کا عنصر تو پرانا ہے مگر ایک وقت یہ بھی تھا اور شاید بہت جگہوں پراب بھی ہے کہ ایک دفعہ کسی کےساتھ ایک تھالی میں کھانا کھالیا تو عمر بھر اسکو یاد رکھا جاتا تھا‘ہمار ے صوبے میں تو خصوصاً اس بات کا بہت زیادہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایک دفعہ کسی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا تو مرتے دم تک اُسے نبھایا جاتا ہے‘ اسی طرح اگر ایک دفعہ کسی کو دشمن کہہ دیا تو یہ دشمنی بھی عمر بھر نبھائی جاتی ہے اور نہ صرف ایک حد تک بلکہ یہ بات نسلوں تک جاتی ہے‘ اسی طرح دوستیوں کو بھی نسلوںتک نبھایا جاتا ہے‘ بہت کم ایسا دیکھا گیا ہے کہ کس نے صرف مفاد کی خاطر دوستی کی ہو مگر اب سیاست نے جو کچھ لوگوں کو سکھایا ہے اُس نے تو دوستیوں کو بھی مفاد تک محدود کر دیا ہے‘سیاسی دوستیاں یا جیسا کہ کہا جاتا ہے سیاسی وابستگیاں اُس وقت تک نبھائی جاتی ہیں جب تک کہ مفاد ہوتا ہے‘ ایک وقت تو ہماری سیاست میں یہ بھی تھا کہ لوگ ایک پارٹی کے ٹکٹ پر جیت کر اسمبلیوں میںجاتے تھے اور پھر چند دنوں میں ہی وہ اُس پارٹی کو چھوڑ کردوسری پارٹی میں چلے جاتے تھے اور اچھی بھلی حکومت کرنے والی پارٹی راتوں را ت حزب اختلا ف کی پارٹی بن جاتی تھی‘ جب یہ کام عروج تک پہنچا تو سیاستدانوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس ” لوٹا ازم “کا خاتمہ ہونا چاہئے اور اس کےلئے ایک ترمیم لائی گئی کہ کوئی بھی پارٹی کا رکن جو پارٹی کے ٹکٹ پر جیت کر آتا ہے اگر وہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اُسے پارٹی سے خارج کر دیا جائے اور ساتھ ہی اُس کی سیٹ بھی خالی ہو جائے۔
اس میں ایک شق ایسی بھی رکھ دی گئی کہ جو صاف طور پر پارٹی لیڈر کو ڈکٹیٹر بنا دیتی ہے، کہ کوئی بھی پارٹی کا رکن جو اسمبلی کا رکن ہے وہ پارٹی لیڈر کے حکم کا پابند ہو گا اور اُس کے فیصلے سے اگرانحراف کرتا ہے تو اُس کی پارٹی رکنیت ختم کر دی جائے گی اور اُ س کی سیٹ بھی ختم ہو جائے گی ‘ اس کا نقصان یہ ہوا کہ کوئی بھی شخص اپنی پارٹی لیڈر کے فیصلے پر اعتراض بھی نہیں کر سکتا‘ یہ بہرحال شخصی آزادی کے خلاف ہے مگر جس طرح سے لوگ آزادانہ پارٹی فیصلوں کے خلاف جا رہے تھے اس کے لئے بند باندھنا بھی ضروری تھا اُس وقت کے تقاضوںکے مطابق یہ فیصلہ البتہ صحیح ہی تھا‘مگر لوگوں نے اب پارٹی چھوڑنے والی بات تو ختم کر دی مگر پارٹی کے اندر گروپ بننے شروع ہو گئے کہ جوپارٹی کی پالیسیوں کے خلاف جانے لگے‘یوں پارٹیاں اسمبلیوںکے اندر کمزور ہو گئیں اور وہ کسی بھی حکومتی فیصلے کے خلاف متحدہ رویہ اپنانے کے قابل نہ رہیں‘ اسی وجہ سے اُس وقت سخت فیصلے کئے گئے اور پارٹی لیڈر کو ڈکٹیٹر بنا دیا گیا‘پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی سے پورا حکومتی کام ہی تلپٹ ہو جاتا ہے ‘ موجودہ حکومت جو ایک خاص عزم لے کر آئی تھی اُس کے حصول کے لئے پارٹی ڈسپلن تو ازحد ضروری تھا اور اگر ایسا ہوتا تو جس تبدیلی کی بات کو لے کر یہ پارٹی اقتدار میں آئی تھی وہ پور ہو جاتا مگر اب آ کر معلوم ہوا ہے کہ یہ سیاسی وابستگیوں میں جو مفاد کا عنصر ہے۔
اُس نے پارٹی کو اپنا وہ گول حاصل کرنے نہیں دیا کہ جو انہوں نے وعدہ کیا تھا‘ پارٹی کے اندر ایک دوسرئے کی ٹانگیں کھینچنے کا عمل جاری رہا اور جیسا کہ اب ظاہرہونے لگا ہے اور کچھ اوپر کی سطح کے لیڈر ان اس بات کو اعتراف کر رہے ہیں کہ لوگوں نے اپنے مفاد کی خاطر پارٹی منشور کو نقصان پہنچایا ‘ اب بھی اگر عمران خان صاحب سختی سے اپنے منشور پر عمل کروانا چاہیں تو وہ کر واسکتے ہیں اس لئے کہ اُن کے ہاتھ میں پارٹی کی سطح پر فیصلے کرنے اور اُن پر عمل کروانے کا قانونی اور آئینی حق ہے‘ اور وہ اُن لوگوں کی سرزنش کر سکتے ہیںکہ جن کی نشان دہی کی گئی ہے‘ اور دیکھا جائے تو یہی ملک اور پارٹی کی پالیسیوں کو عمل میں لانے کےلئے ضروری بلکہ بہت ضروری ہے‘ کچھ لوگ الیکشن سے قبل پارٹی کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اس لئے اس میں شامل ہوئے تھے کہ عمران خان کا سیاسی پس منظر کچھ بھی نہیں ہے اس لئے اس کو بہت جلد ایک طرف کر دیا جائے گا اور حکومت اُن کے ہاتھ میں آ جائے گی‘ مگربات الٹ گئی اور عمران خان نے خود کو واقعی ایک لیڈر بنا کے دکھا دیا ہے اس لئے اُس کے خلاف اندرونی سازشوں کا جال تو بننا تھا اور یہی وجہ ہے کہ ابھی تک پارٹی کے اصل مقصدکو نہیں حاصل کیا جا سکا ‘ اگر عمران خان صاحب اب بھی پورے ملک کے حکمران بنیں یعنی وہ حزب اختلاف کو بھی ساتھ لے کر چلیں تو ممکن ہے کہ وہ جو کچھ چاہتے ہیںوہ پورا ہو سکے اور اندرونی خلفشاروں کا قلع قمع ہو سکے اور جو چیلنجز ملک کو درپیش ہیں اس کےلئے حزب اقتدار اور حزب اختلاف کا ایک پیج پر ہونا بہت ہی ضروری ہے۔