دنیا میں کورونا کی ہلاکت خیزی کم نہیں ہوئی لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب عالمی سطح پر اس وائرس کےساتھ ہی محتاط انداز سے زندگی گزارنے کا فیصلہ کرلیاگیا ہے‘ یورپ نے اپنی سرحدیں کھول دی ہیں امریکہ میں لاک ڈاﺅن ختم ہو چکا ہے نسلی امتیاز کے خلاف مظاہرے جاری ہیں اور صدارتی الیکشن مہم بھی شروع ہوگئی ہے‘ ایک دن قبل سعودی عرب سے اچھی خبر آئی تھی کہ وہاں لاک ڈاﺅن ختم کردیاگیا لیکن تازہ اطلاع یہ ہے کہ اس سال حج کیلئے سعودی عرب سے باہر کا کوئی حاجی نہیں جا سکے گا صرف سعودی شہری یا وہاں مقیم غیر ملکی مسلمان ہی حج کر سکیں گے‘یقینا اس فیصلے سے ہزاروں عازمین کو صدمہ ہوا ہوگا لیکن اللہ کی مرضی کے آگے کسی کی نہیں چلتی اور انسان اپنی طاقت و استطاعت تک ہی مکلف ہے‘ پاکستان میں سمارٹ لاک ڈاﺅن کے تحت مختلف شہروں کے خاص علاقوں کو بند کرنے کی پالیسی پر عمل ہو رہا ہے اسلام آباد کے کئی سیکٹرز اور ٹاﺅنز میں 22 علاقے سیل کئے گئے ہیں اس وقت اعلیٰ حکومتی سطح پر یہ سوال زیر غور ہے کہ آنے والی عید قربان پر قربانی کے جانوروں کی منڈیاں لگانے ‘ خرید و فروخت اور ذبح و تقسیم کے امور کس طرح سرانجام دیئے جائیں کہ کورونا کے پھیلاﺅ کا امکان کم سے کم ہو گزشتہ روز بھی ایوان صدر میں اجلاس ہوا جس میں وفاقی وزراءنے مذہبی امور و داخلہ اور وزیراعظم کے مشیر برائے صحت نے شرکت کی قربانی کے موقع پر ہرسال کوئی نہ کوئی خدشہ سراٹھا لیتا ہے گزشتہ سالوں میں کانگو وائرس کے خطرے کے پیش نظر مویشیوں سے دور رہنے کی ہدایت کی جاتی تھی اس بار کورونا ہے اگرچہ ابھی تک جانوروں میں کورونا کی منتقلی کی کوئی اطلاع نہیں مگر منڈیوں میں جس غیرمحتاط انداز میں لوگ خریدوفروخت کرتے ہیں اس سے خطرہ تو موجود ہے ‘گزشتہ رمضان میں سپریم کورٹ کے حکم پر حکومت نے بازار کھولنے کی اجازت دے دی تھی جس کا نتیجہ مریضوں میں اضافے کی صورت میں آج ہمارے سامنے ہے۔
‘اس ناخوشگوار تجربے کے بعد اب قربانی کی عید پر حکومت کی تشویش بھی بجا ہے مگر مذہبی معاملات نازک ہوتے ہیں اور کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے کئی بار سوچنا پڑتا ہے‘ جہاں تک حفاظتی تدابیر کا تعلق ہے تو حکومت لاکھ تنبیہ کرے اور نگران کھڑے کرے لیکن صحیح معنوں میں عملدرآمد ممکن ہی نہیں اور جہاں دوردراز دیہات سے زمیندار اور بیوپاری جانور لے کر آئیں اور شہری بے تکلفی سے سودا بازی کریں تو ایس او پیز پر عمل کیسے ہو سکتا ہے‘ کہنے کو کورونا کے اثرات نے لوگوں کی قوت خرید ختم کردی ہے بے روزگاری اور غربت نے قربانی دینے والوں کی تعداد بہت کم کردی ہے لیکن غربت کا رونارونے والے بھی عید کے قریب کوئی جانور تلاش کرنے لگتے ہیں‘عید قربان ہمارے لئے سماجی اور کاروباری معاملہ بھی ہے ایک اندازے کے مطابق40 ارب روپے کے لگ بھگ جانوروں کی خریدوفروخت ہوتی ہے ان سے حاصل ہونے والی کھالوں اور چمڑوں پر دینی مدارس اور فلاحی تنظیموں کا بجٹ چلتا ہے‘ اس لئے لاکھوں افراد کا روزگار بھی عید قربان کے تین دنوں میں ہونے والی سرگرمیوں سے منسلک ہے‘ اس لئے اس کو نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا‘ گزشتہ کئی سالوں سے ہمارے ملک میں اجتماعی قربانیوں کا رواج شروع ہے۔
عموماً دینی مدارس کی انتظامیہ یہ اہتمام کرتی ہے لوگوں کو حصے کے پیسے لیکر گوشت گھر دے آتے ہیں اور مدارس کو چمڑا بچ جاتا ہے اگر حکومتی نگرانی میں اس طریقے کو اختیار کیا جائے تو یہ زیادہ محفوظ طریقہ ہو سکتا ہے‘ کسی ایک جگہ ایس او پیز پر بھی عمل آسان ہوگا اور لوگوں کو گھر پر گوشت مل جائے گا‘عام آدمی کی جانوروں کی خریدوفروخت کے جھنجھٹ اور رسک سے بھی جان چھوٹ جائے گی لیکن فیصلہ بہرحال حکومت نے کرنا ہے اور یہ بات طے ہے کہ عوام پر کوئی اعتماد نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی قربانی سے روکا جا سکتا ہے۔ لیکن بہرحال عوام کو جانوروں کی فراہمی میں آسانی اگر حکومت منڈیاں بند کرتی ہے تو حکومت کی ذمہ داری ٹھہرتی ہے ہونا یہ چاہئے کہ حکومت پہلے سے قائم بڑی منڈیوں میں ایس او پیز کے تحت جانوروں کی فراہمی ممکن بنائے اور پھر سرکاری ادارے جانوروں کی تصاویر اور قیمتیں لے کر انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کردیں جس کے لئے ایک خصوصی ایپلی کیشن بنائی جا سکتی ہے لیکن قیمتوں پر کنٹرول حکومت کی ذمہ داری ہونی چاہئے۔