کہتے ہیں کہ دنیا میں اگر کوئی طاقتور ہے تو وہ کسی بھی ملک کی حکومت ہے۔ حکومتیں قانون بناتی ہیں اور ان پر عمل درآمد کرواتی ہیں اور جو بھی قانون پر عمل کرنے سے گریزکرے تو حکومت کے پاس اس کو عمل کروانے کےلئے مختلف طاقتیں ہوتی ہیں جن میں پولیس‘ فوج ‘ رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ۔ اسلئے کوئی بھی شخص یا کوئی بھی تنظیم اتنی طاقتور نہیں ہو سکتی کہ جو حکومت کی رٹ کو چیلنج کرے۔ لیکن اس کام کو کرنے کےلئے خود حکومتی نمائندوں کو بھی اتنا طاقتور ہونا چاہئے کہ وہ بلا تفریق لوگوں کو قانون پر عمل درآمد کروانے کےلئے آگے آسکیں‘قانون نافذکرنےوالے اداروں کے پیچھے جو قوت ہوتی ہے وہ خود حکومتی نمائندے ہوتے ہیں ‘جب حکومتی اراکین گومگو کی کیفیت میں ہوں توقانون نافذ کرنےوالے ادارے بھی بیکار ہو جاتے ہیں‘ہم نے دیکھا کہ کچھ دنوں سے حکومت کی جانب سے جو بھی حکم جاری ہورہا ہے اس پر عملدرآمد نہیں ہوپاتا‘اسی وجہ سے ایک کے بعد ایک بحران جنم لے رہاہے‘ پہلے چینی کا رولا پڑا چینی جو پچپن روپے کلو تھی اچانک ہی نوے روپے تک پہنچ گئی‘حکومت نے اس پر ایک کمیشن بٹھایا تاکہ پتہ چل سکے کہ مسئلہ کیوں پیدا ہوا ۔مگر کمیشن کی رپورٹ آنے سے اور اس کو پبلک کرنے سے قبل ہی اس کی مزید تفتیش کی گئی اور جن لوگوں کا نام اس بحران میں آ رہا تھا ان میں سے کچھ لوگ ملک سے باہر چلے گئے‘ اس کے بعد اس رپورٹ کا کیا ہوا اللہ جانے ‘کیوں کہ اس کی بات تو ختم ہی ہوگئی۔
بات عدالت تک پہنچی توعدالت نے چینی کی قیمت مقررکرکے کہا کہ چینی ستر روپے کلو ملنی چاہئے‘ بات مان لی گئی مگر حکومت اس چینی کو ستر روپے پر بکوانے میںناکام رہی اور پینتالیس روپے کلو والی چینی کہ جس کی قیمت عدالت نے ستر روپے مقررکر دی تھی وہ آج بھی دھڑلے سے پچاسی روپے کلو بک رہی ہے‘ادھر چینی کی بات ہو رہی تھی کہ آٹے والے جاگ اٹھے اور نو سو روپے والا بیس کلوکا تھیلا گےارہ سو کا کردیا‘ حکومت نے اس کےلئے جوکمیشن بٹھایا اس کا تو پتہ نہیں کیا ہوا مگر آٹے کا بیس کلو والا تھیلا ہم ایک بارہ سوکا لائے‘ اب اس میںکون قصوروار ہے ہمیں کچھ معلوم نہیں‘ابھی آٹے کو رو رہے تھے کہ حکومت نے عالمی منڈی میںتیل کی قیمتیں دیکھتے ہوئے قیمتوں میں کمی کردی۔ مگر ہوا کیا کہ پٹرول پمپوں پر تیل ناپید ہوگیا ۔ لوگ اپنی گاڑیاں اور موٹر سائیکل لے کر پٹرول پمپوں پر پھر رہے ہیں مگر ہر پٹرول پمپ پر ان کوبینر لٹکے ہوئے مل رہے ہیں کہ پٹرول ختم ہے۔اللہ جانے ایک ہی دن میں سارا پٹرول کیوںکہاں کھوگیا‘ہمارے تیل کے وزیر صاحب بڑے طمطراق سے نکلے اور جگہ جگہ چھاپے مارے‘کچھ کمپنیوں کو سیل کیا کچھ پٹرول پمپوں کو جرمانے کئے‘دوچار دن خوب دوڑیں لگیں ہم منتظر تھے کہ اب پٹرول پمپوں پر دستیاب ہوا کہ ہوا مگر وائے بدقسمتی کہ کم ریٹ پر کہیں بھی پٹرول نہ مل سکا۔
جن لوگوں کو زیادہ تکلیف تھی انہوں نے تو بلیک میں تیل اپنی گاڑیوں میںڈلوا لیا مگر حکومت کی کسی نے نہ سنی‘دنیا میں وہ کرائسس جو شروع ہوا تھا اب بھی باقاعدگی سے جاری ہے کہ کورونا نے دنیا کی معیشت کو روند ڈالا ہے اور تیل پیدا کرنے والے ملک تو چیخ رہے ہیں کہ اللہ واسطے ہم سے مفت تیل لے جاو¿ مگر پاکستان میں جو تیل مافیا ہے وہ منظم ہے اور حکومت کی رٹ کو چلنے نہیں دے رہا ‘جب وزیر تیل لوگوں کو جرمانے کر کرکے تھکے تو اچانک ہی پتہ چلا کی دنیا میں تیل کا بحران پیدا ہوگیا ہے اور تیل ناپید ہوگیا ہے اور بہت زیادہ مہنگا بھی اسی لئے حکومت نے ایک لمحے کا اور یکم تاریخ کا بھی انتظار نہیں کیا اور تیل کی قیمتوں میں پچیس تیس روپے فی لٹر اضافہ کردیا‘جونہی پٹرول کی قیمتوں میںاضافے کا اعلان ہوا اچانک ہی پورے پاکستان کے پٹرول پمپوں میں پٹرول اورڈیزل امڈ آیا۔شاےد پٹرول پمپوں کے چشمے اسی انتظار میں تھے کہ حکومت قیمتوں میں اضافے کا اعلان کرے اور ہم پھوٹ پڑیں‘حکومت کی رٹ تو نظر آگئی کہ مافیا چاہے وہ تیل مافیا ہو یا چینی مافیا ہو آٹا مافیا ہو وہاںتوحکومت ہینڈز اپ ہو جاتی ہے البتہ اپنے مخالفین پر تو یہ رٹ فوراً سے پہلے نظر آ جاتی ہے اور نافذ بھی ہو جاتی ہے۔