ظلم کے خلاف آواز

پشاورکے رہائشی ایک جوان جس نے اےک وےڈےو مےں پولیس افسران کےخلاف نازےبا کلمات ادا کئے تھے کےساتھ پشاور پولیس کے نصف درجن اہلکاروںنے جوسلوک کیا وہ پولیس کے ہی کسی جوان کے ذریعے ساری دنیا نے دیکھ لیا ہے لیکن نہ تو یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی آخری‘ اور نہ ہی یہ صرف خیبرپختونخوا پولیس تک محدود ہے اگر عامر تہکال کےساتھ ہوئے ظلم اور تشدد کی حقیقت سوشل میڈیا کے ذریعے باہر نہ آتی تو شیردل جوانوں نے اس سے اپنے حسن سلوک کا بیان بھی حاصل کرلیا تھا‘ وزیراعلیٰ محمود خان نے اس واقعہ کا فوری نوٹس لیا واقعہ میں ملوث اہلکار گرفتار کرلئے گئے اور امید ہے کہ ان کو اپنے کئے کی سزا ملے گی حالانکہ ایسا پہلے کبھی ہوا نہیں ہے‘قارئین کو یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ پہلے پنجاب پولیس نے اے ٹی ایم کے کیمرے میں منہ چڑانے والے ایک نیم پاگل شخص کو اتنا مارا تھا کہ وہ جان سے گیا تھا‘میڈیا نے انصاف کیلئے آواز اٹھائی‘ ظلم کرنے والے پولیس اہلکار پکڑے بھی گئے لیکن چند ہفتوں بعد ہی اس کے والد نے پولیس کو معاف کر دیا تھا‘ اس معافی کے پیچھے چھپی داستان اتنی مشکل نہیں کہ کسی کو سمجھ نہ آئے‘ سیدھی سی بات ہے کہ پاکستان میں کوئی عقل مند شہری پولیس کے تھانیدار اور محکمہ مال کے پٹواری کےساتھ دشمنی نہیں پال سکتا‘ اسی لئے ہر ایسا واقعہ جس میں پولیس رنگے ہاتھوں پکڑی جائے اس پر فوری ردعمل سخت ہوتا ہے‘ محکمہ اور حکومت نوٹس لیتی ہے‘ معطلیاں اور گرفتاریاں ہوتی ہیں اور جب میڈیا پر کوئی دوسرا واقعہ آجاتا ہے تو مضروب یا مقتول کے لواحقین پولیس کو فی سبیل اللہ معاف کر دیتے ہیں‘ عدالت بھی مجبور ہوجاتی ہے کہ ظالم کے خلاف نہ تو کوئی گواہی دینے کو تیار ہوتا ہے اور نہ ہی مدعی اتنا حوصلہ رکھتا ہے ‘یہ تو سوشل میڈیا اور موبائل کیمروں کی وجہ سے کوئی نہ کوئی واقعہ منظر عام پر آجاتا ہے ورنہ تھانوں کا ماحول کسی قانون سازی یا خوشنما قسم کے بیانات سے تبدیل ہونے والا نہیں‘آج بھی وہی ماحول ہے۔

 جو نصف صدی پہلے تھا پولیس صرف اپنے لئے ہی کمزور لوگوں پر ظلم نہیں کرتی بلکہ علاقے کے بدنام اور بدمعاش گروہوں کے ظلم پر بھی اسی طرح پردے ڈالتی ہے‘ اگر کوئی مظلوم اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی شکایت لیکر تھانے چلا جائے تو اسے داد رسی کی بجائے دھمکیاں ملتی ہیں کہ اپنی شکایت واپس لے لے‘اور پھر ایسا ہی ہوتا ہے‘کراچی میں چار سال پہلے ایک بگڑے رئےس زادے نے پولیس کے اےک ڈی ایس پی کے جواں سال بیٹے شاہ زیب کو اسلئے قتل کردیا تھا کہ شاہ زیب نے اس کو اپنی بہن کو تنگ کرنے سے روکا تھا چونکہ شاہ زیب اور اس کی بہن یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ تھے اسلئے طلباءنے انصاف کیلئے تحریک چلائی‘جاگیردار کا بیٹا گرفتار ہوا‘دن دیہاڑے کا واقعہ تھا طلبہ نے گواہی بھی دے دی اور عدالت نے ملزم اور اس کے ساتھی کو سزائے موت سنادی لیکن دنیا نے دیکھا کہ سزائے موت پر ملزم قاتل نے خوشی کا اظہار کیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ دولت اور طاقت کے ہوتے ہوئے اسے کوئی پھانسی نہیں لگا سکتا اور ایسا ہی ہوا‘ ڈی ایس پی کو اتنا ڈرایا گیا کہ وہ پیسے لیکر راضی نامہ کرنے پر مجبور ہوگیا اور بیٹی کو لیکر پاکستان ہی چھوڑ گیا‘ آج نہ صرف پشاور بلکہ ملک بھر میں عامر تہکال کے خلاف ظلم پر غم و غصہ ہے حکومت نے ملزمان پولیس اہلکار گرفتار بھی کرلئے اور ایف آئی آر بھی درج ہوگئی‘ہماری خواہش اور دعا ہے کہ مضروب و مظلوم عامر اور اس کے اہل خانہ کو اتنی ہمت ملے کہ وہ اس کیس کو منطقی انجام تک چلنے دیں‘ کسی علاقے کے سر پنچ یا ٹاﺅٹ کے بہکاوے میں نہ آئیں نہ خوف اور لالچ کا شکار ہوں تاکہ کوئی ایک تو ایسی مثال قائم ہو سکے جس میں پولیس کو ظلم پر سزا ہوئی ہو ‘اس طرح کسی اور کمزور پر ظلم کا راستہ بند ہو سکتا ہے ‘حکومت تو خیر اس پر کمپرومائز نہیں کر سکتی لیکن پولیس کے سینئر افسران کو بھی اپنی فورس کا ناجائز دفاع کرنے کی بجائے محکمہ کو بدنام کرنے والوں کو کیفرکردار تک پہنچانے میں کھل کر مظلوم کا ساتھ دینا ہوگا۔