جمہوری سیاست میں مشاورت ایک ضروری عمل ہے اور کثیر جماعتی نظام میں یہ زیادہ ضروری ہو جاتا ہے ہمارے ہاں حکومت ہمیشہ کئی جماعتوں کے اشتراک سے بنتی ہے ‘ اس لئے بڑی پارٹی کو اپنے اتحادی ساتھ ملائے رکھنے کےلئے تنے ہوئے رسے پر چلنے جیسی محنت کرنا پڑتی ہے سب کو ساتھ چلانے کےلئے ان کے مطالبات بھی تسلیم کرناپڑتے ہیں‘ ماضی میں وزرائے اعظم قومی اسمبلی میں جائیں یا نہ جائیں لیکن تواتر کے ساتھ اتحادیوں کو دعوتیں دیتے رہتے تھے ‘ جن میں ذاتی قسم کے کام کرنے کی فرمائشیں پوری کی جاتیں ‘ موجودہ حکومت عددی اعتبار سے ایک کمزور حیثیت کے باوجود اس لحاظ سے مضبوط ہے کہ اپوزیشن بھی متحد نہیں اور سابق حکمران دو جماعتیں ایک دوسرے کا حقیقی ساتھ دینے کو تیار نہیں ان کی باہمی بداعتمادی شروع کے چند ماہ میں کھل کرسامنے آ چکی ہے اور وزیراعظم کے انتخاب سے لیکر سپیکر اور چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں بھی متفق نہیں ہو سکیں حالانکہ جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کل جماعتی کانفرنس بلا کر اپوزیشن کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی آج حکومت کو دو سال ہو چکے ہیں اپوزیشن نے کئی مواقع پر بظاہر متحد ہو کر حکومت کو ہٹانے کا عزم کیا ‘مگر کامیابی نہیںمل سکی دوسری طرف وزیراعظم عمران خان نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ کئے گئے مطابات پر بھی زیادہ سنجیدگی نہیں دکھائی اس حوالے سے چند سال پہلے ایک اہم اتحادی (ق) لیگ نے اپنی اہمیت دکھانے اور بالخصوص پنجاب میں حکومتی گنتی خراب کرنے کی دھمکیاں دی تھیں لیکن عمران خان کی استقامت نے ان کو بھی اس تنخواہ پر کام کرنے مجبور کر دیا تھا۔
حالیہ بجٹ اجلاس کے دوان بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) نے مطالبات منظور نہ ہونے پر حکومت سے الگ ہونے کا اعلان کرکے سیاسی دھماکہ کر دیا لیکن حکومت اور اپوزیشن دونوں نے اس پر اتنا شدید رد عمل نہیں دیا وزیراعظم عمران خان نے کابینہ کے کچھ ارکان کو کہا کہ وہ بی این پی کے چیئرمین اختر مینگل سے ملاقات کرکے ان کے تحفظات دور کریں مگر اس سے پہلے مولانا فضل الرحمان ‘اختر مینگل سے دو ملاقاتیں کر چکے تھے اس لئے وزراءکی ملاقات کا مثبت نتیجہ نہیں نکل سکا لیکن بہرحال حکومت کو فی الحال ایسا کوئی خطرہ نہیں او ر بجٹ منظورکرانے کے لئے بھی گنتی پوری ہے لیکن اس کے باوجود گزشتہ دنوں ایک وفد نے جمہوری وطن پارٹی کے شاہ زین بگتی سے ملاقات کی ‘ وزیراعلی پنجاب نے سپیکر پنجاب اسمبلی اور (ق) لیگ کے چوہدری پرویز الٰہی سے ملاقات کی ‘ اسد عمر کی قیادت میں وفد نے کراچی میں جی ڈی اے کے رہنما پیر پگاڑا سے مذاکرات کئے اس کے علاوہ وزیراعظم نے اپنی پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ اور اتحادیوں کواتوار کی رات ڈنر پر بلایا‘غالباً وزیراعظم کی طرف سے اس طرز کی یہ پہلی دعوت ہے وہ تو کابینہ اجلاس میں بھی چائے کے علاوہ کچھ پیش کرنے کے خلاف ہیں اور وزراءماضی کے کابینہ اجلاسوں میں ہونے والی دعوتوںکو یاد کرتے ہیں بہر حال اس دعوت کا مقصد اتحادیوں سے زیادہ اپنی پارٹی کے ارکان کوسمجھانا تھا کیونکہ پہلی بار ایسا ہوا ہے۔
کہ حکومتی ارکان اسمبلی بھی حکومت کے خلاف بولنے لگے ہیں حالانکہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے ادوار میں کسی رکن پارلیمنٹ کو حکومت یا قیادت کے خلاف بات کرنے کی جرا¿ت نہیں ہوتی تھی اگر کسی نے نجی طور پر بھی کبھی کوی بات کی تو اس کو سزادی گئی بہر حال اب لوگوں کو خوف نہیں ہے لیکن ان کے تحفظات دور کرنے کےلئے عشائیہ دینا ضروری ہوگیا تھا اس سے حکومت کو تقویت تو ملے گی اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اپوزیشن کی طرف سے اے پی سی کے ممکنہ انعقاد کا بھی تدارک ہوگیا ہے ویسے بھی اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی طرف سے حقیقت پسندانہ سیاست اور اپنی توانائیاں بچا کر رکھنے کی پالیسی سے اپوزیشن کی ہر تحریک پر ناکامی کی چھاپ لگ جاتی ہے شہباز شریف کو معلوم ہے کہ کسی طرح بھی حکومت کو ختم نہیں کیا جاسکتا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ مشکل اقتصادی حالات اور عالمی بحران میں جس طرح عمران خان نے کورونا اور عام لوگوں کےلئے کاروبار کھولنے میں توازن رکھا ہے یہ غیر معمولی فیصلے کرنے کی صلاحیت والا ہی کرسکتا ہے بہرحال وزیر اعظم نے عشائیہ دے کر اپنے اتحادیوں کے ساتھ مخالفین کا بھی منہ بند کردیا ہے اور بجٹ منظور کرانے کی راہ ہموار کرلی ہے۔