کچھ دن قبل اچانک ہی پٹرول غائب ہو گیا ۔ ملک بھر میں کسی بھی پٹرول پمپ پر پٹرول نہیں مل رہا تھا۔ وزیر پٹرولیم جناب عمر ایوب کو بڑ ا غصہ آیا کہ ہم نے تیل سستا کیاتو مافیا نے تیل چھپا ہی دیا‘جس پر انہوںنے سخت ایکشن لینے کا بیان جاری کردیا۔جس پر عوام میں یہ خوش فہمی پھیلنے لگی کہ جلد ہی تیل ہر جگہ مناسب قیمت پر دستیاب ہوگا۔ ہماراخیال تھا کہ یہ حکومت اتنی مضبوط ہے کہ کسی کو اپنی حکم عدولی کرنے نہیں دے گی مگر یہ معلوم نہیں تھا کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ کوئی عمر ایوب سے ڈر جائے گا چنانچہ جب مافیا نے آنکھیں دکھائیں تو وزیر پٹرولیم کو پتہ چلا کہ دنیا میں تو پٹرول مہنگا ہو گیاہے اورہم نے خواہ مخواہ پٹرول کی قیمتیں کم کی ہیں تو انہوںنے فوراً ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کیا اور پٹرول کی قیمت میں یک دم پچیس روپے لیٹر کا اضافہ کر دیا جس پر فوراً ہر پٹرول پمپ پر پٹرول آسانی سے دستیاب ہونے لگا ، اب وزیر پٹرولیم عوام کو بتا رہے ہیں کہ عالمی منڈی میں اچانک ہی پٹرول کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے جس کو ہم عوام کی طرف منتقل کر رہے ہیں۔۔ایسی عوام دوست حکومت کب پاکستانیوں کو ملی تھی اور کب دوبارہ ملے گی۔ اب جو پٹرول میں پچیس روپے فی لیٹر کا اضافہ کر دیا گیاہے تو اس کے نتیجے میں ٹرانسپورٹ کے کرایوں میںاضافہ توپشاور میںسامنے آ ہی گیا ہے اورجلد ہی پاکستان کے دوسرے صوبوں میں بھی سامنے آئے گا۔
اب یہ لازمی امر ہے کہ جب کرائے زیادہ ہوں گے تو اشیائے سرف کی قیمتوں میں بھی اُسی حساب سے اضافہ ہو جائے گا جبکہ دوسری طرف حکومت کسی صورت بھی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرنے کو تیا ر نہیں ۔ ان ملازمین کا کیا حال ہو گا اور دیگر مزدوروں او ر دہاڑی داروں کا کیا حال ہو گا کیونکہ پٹرول میں اضافہ صرف پٹرول پر ہی اثر انداز نہیں ہوتا بلکہ اس کا پوری معیشت پر اور پوری اشیائے سرف پر اثر پڑتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جلد ہی آٹا بھی مہنگا ہو جائے گا جو پہلے ہی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے او راس کے ساتھ ساتھ دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی پٹرول کے اضافے کی مناسبت سے اضافہ ہو گا۔ اس وقت قوت خرید کا یہ حال ہے کہ بیس گریڈ کا افسر بھی مہنگائی کے ہاتھوں رو رہا ہے ۔جو لوگ صرف تنخواہ پر انحصار کرتے ہیں وہ تو مارے گئے اور جب مہنگائی اتنی زیادہ ہو جائے گی اور تنخواہوں میں اضافہ بھی نہیں ہو گا تو ظاہر ہے لوگوں کو اپنے اخراجات پورا کرنے کے لئے ادھر ادھر ہاتھ مارنے پڑیں گے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ سے تمام اشیائے سرف کی قیمتوں پراثر پڑتا ہے اور منڈی تک اشیاءکے پہنچانے پر جو خرچہ آتا ہے اسے بھی عوام کو منتقل کر دیا جاتاہے۔ اس طرح ایک حکومتی اقدام سے عوام کی مشکلات میں جو اضافہ ہوگا تو ا سے ایسی بے چینی بھی جنم لے سکتی ہے۔
جو کسی بھی طرح حکومت کیلئے نیک شگون نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت کو جس مینڈیٹ کے تحت منتخب کیا گیا ہے اس میں ایسے وعدے شامل ہیں کہ جن کو عوام کے دل کی آواز کہا جاسکتا ہے، یہ وعدہ کیا گیا کہ عوام کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس لایا جائیگا اور جن لوگوںنے قومی خزانے کو لوٹا ہے ان کو سزائیں ملیں گی ، ساتھ مہنگائی کے خاتمے اور عوام کو مناسب قیمت پر اشیائے صرف کی دستیابی کے وعدے بھی قابل ذکر ہیں۔ مگر اب جب کہ حکومت کو دو سال ہوئے ہیں ان میں سے اکثر وعدے وفا ہونے کے منتظر ہیں اور جس قسم کے حالات بن گئے ہیں مشکل ہے کہ کوئی وعدہ پورا ہو۔ کیونکہ اس وقت تو حکومت کو اپنے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے اپنے اتحادیوں کی منتیں کرنا پڑ رہی ہیں اور جب حکومت اپنے آپ کو بچانے میںمصروف ہو تو پھر عوام کی ضروریات اور ان کے مطالبات ثانوی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔بات ہو رہی تھی پٹرول بم کی تو اس نے رہی سہی کسر پوری کر لی ہے اور وہ دن دور نہیں جب عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو اور حکومت کو لینے کے دینے پڑ جائیںگے۔ اس ضمن میں ضروری امر یہ ہے کہ جلد از جلد عوام کور یلیف دینے کیلئے حقیقی معنوں میں اقدامات کئے جائیں۔