ہوسے سراماگو ایک نوبل انعام یافتہ پرتگالی ادیب ہے جو عمر بھر ظلم کے خلاف سینہ سپر ہوکر یورپ اور امریکہ کی رائے عامہ کے بالکل مخالف سمت میں قدم بڑھا کر مظلوموں کے برابر میں جا کھڑاہوا‘ اس کے سیاسی نظریات امریکہ اور یورپ کوہضم نہیں ہوتے لیکن اسے مطعون نہیں کیاجاسکتا کہ وہ اس صدی کے عظیم ترین ناول نگاروں میں شمار ہوتا ہے‘ اس نے ایک بین الاقوامی ادبی کانفرنس میں اس لئے شمولیت سے انکار کر دیا تھا کہ کانفرنس کے کرتادھرتا حضرات نے اس کا یہ مطالبہ ماننے سے انکار کردیا تھا کہ اس میں شامل تمام ادیب عراق پر امریکی حملے کی مذمت کریں۔یہ طے ہے کہ ہسپانوی زبان کا ایک اور نوبل انعام یافتہ ناول نگار گارسیامارکیز جس نے ”تنہائی کے سو برس‘ ناول سے بے پناہ شہرت حاصل کی، عہد حاضر کا بہت بڑا ناول نگار ہے‘ کچھ نقادوں کا خیال ہے کہ وہ سب سے بڑا ناول نگار ہے اور چند نقاد ایسے ہیں جوہو سے سراما گو کو یہ مقام دیتے ہیں، ذاتی طورپر یہ دونوں ہسپانوی زبان کے ادیب میرے بے حد پسندیدہ ہیں اور میں نے ان سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کی کوشش کی ہے بلکہ میرے ناول ”بہاﺅ“ پر تبصرہ کرتے ہوئے جب بی بی سی کے مبصر نے یہ رائے دی کہ ”بہاﺅ“ کا رسیا کے ناولوں کے ہم پلہ قرار دیاجاسکتاہے تو میرے لئے یہ خوشی بختی کی آخری حد تھی‘ اس کے باوجود میں بھی ان معدود ے چند نقادوں سے کسی حد تک متفق ہوں کہ گارسیامارکیز نہیں یہ ہو سے سراما گو ہے جو اس عہد کا سب سے بڑا ناول نگار ہے‘ اگرچہ اس کی پذیرائی گار سیا سے کہیں کم ہوئی ہے۔
جیسے فیوڈور دوستو سکی کے بیشتر ناولوں کے پہلے سو پچاس صفحے پڑھ ڈالنا بڑا دل گردے کا کام ہے‘ بلکہ یہ اولین صفحے تو آپ کو بوریت اور تفصیل سے باقاعدہ خون تُھکوا دیتے ہیں لیکن ان کے بعد آپ دوستو سکی کے شکنجے میں ایسے کسے جاتے ہیں کہ آپ فرار نہیں ہوسکتے اور نہ ہی ہونا چاہتے ہیں‘ چند برس پیشتر جب ماسکو یونیورسٹی نے مجھے چند لیکچرز دینے کیلئے مدعو کیا تو اس دوران میں نے دوستوسکی کے ناول ”برادرز کرامازوف“ پر مبنی ایک کھیل دیکھا‘ اگرچہ یہ کھیل روسی زبان میں تھا لیکن اس کے باوجود اس کے جاندار کرداروں نے مجھے اپنی نشست پر باندھ کر رکھ دیا‘ دوستو سکی کے ناولوں کی مانند ہو سے سراماگو کے ناولوں کے ابتدائی صفحے پڑھنا بھی جان جوکھوں کا کام ہے‘ اس لئے بھی کہ ہر عظیم ادیب کی مانند وہ نہ تو گرائمر پر یقین رکھتا ہے اور نہ ہی الفاظ کے دروبست پر مثلاً وہ ایک ایسا ادیب ہے جو مسلسل لکھتا چلا جاتاہے‘ اس کا ایک پیراگراف کئی صفحوں پر محیط ہوسکتاہے جو کہ جیمز جوائس کے ”یولیسس“ کا بھی خاصاہے‘ نہ وہ آسانی سے فل سٹاپ لگاتا ہے، نہ کوما اور نہ ہی مکالمے لکھتے ہوئے انہیں الٹے کو ماز میں قید کرتا ہے‘ بس مسلسل لکھتا چلا جاتا ہے‘ اس عجیب و غریب اسلوب کے علاوہ اس کے ناولوں کے موضوعات بھی عجیب اور ناقابل یقین سے ہوتے ہیں لیکن تخلیق پر اس کی مکمل قدرت ان موضوعات کو بھی یقین کی وادیوں میں لے جاتی ہے‘ اسکا ایک ناول”سٹون رافٹ“ہے اور موضوع یہ ہے کہ یورپ کے مختلف حصوں میں زمین میں شگاف پڑنے لگتے ہیںاور پھر کھلتا ہے کہ ہسپانیہ اور پرتگال بقیہ یورپ سے الگ ہورہے ہیں۔
ان کے درمیان دراڑیں پڑ رہی ہیں اور بالآخر یہ دونوں ملک یورپ سے جدا ہوکر سمندر میں ایک بڑے جزیرے کی صورت امریکہ کی جانب بہنے لگتے ہیں‘ کیا یہ عجیب سا موضوع نہیں ہے لیکن اس ناول کی اثر انگیزی ایسی ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد جب کبھی آپ یورپ کانقشہ دیکھتے ہیںتو آپ کو وہ دراڑیں نظرآنے لگتی ہیں اور ہسپانیہ اورپرتگال اس سے جدا ہوتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں‘ہو سے سراما گو کا سب سے شاہکار اور دل دہلا دینے والا ناول ”بلائنڈنیس“ یا ”اندھاپن“ ہے‘ میں اس کی بہت مختصر کہانی اس لئے بیان کرنا چاہتا ہوں ‘ جنوبی امریکہ کا ایک بہت بڑا اور جدید شہر ہے صبح کا وقت ہے اور شاہراہوں پر کاروںکا ہجوم ہے‘ ہر کوئی اپنے دفتر یا کام پر پہنچنے کیلئے بے چین ہے‘ ٹریفک لائٹس جل بجھ رہی ہیں، سرخ اور سبز ہوتی چلی جاتی ہیں اور ٹریفک چنگاڑتی چلی جاتی ہے‘ ایک پرہجوم چوک میں ٹریفک رکی ہوئی ہے کہ لائٹ سرخ ہے پھر وہ آنکھ جھپک کر سبز ہوجاتی ہے‘ کاریں یکدم چل پڑتی ہیں لیکن ایک کار ایسی ہے جو ساکت ہے چلتی نہیں، کار کے پیچھے لوگ ہارن دے رہے ہیںکہ کم بخت حرکت کیوں نہیں کرتی اور جب وہ رکی رہتی ہے تو دو تین ڈرائیور طیش میں آکر اپنی کاروں سے اتر کر اس رکی ہوئی کار کے ڈرائیور کو لعن طعن کرتے ہیں تو وہ خلاءمیں گھورتاہوا کہتا ہے” میں اندھاہوگیاہوں میری آنکھوں کے آگے اندھیرا نہیں ایک بے جان سفیدی ہے۔
اسے فوری طورپر ہسپتال پہنچایا جاتا ہے جہاں ایک ڈاکٹر اس کا تفصیلی معائنہ کرنے کے بعد کہتا ہے ”اس کی آنکھیں مکمل طورپر صحت مند ہیں‘ انہیں دیکھنا چاہیے شائد یہ کوئی اعصاب کی بیماری ہے‘ میڈیکل کی تاریخ میں ایسا کوئی حوالہ نہیں ہے۔پھر یوں ہوتا ہے کہ فٹ پاتھ پر چلتی ایک لڑکی ٹھوکر کھا کر گر جاتی ہے‘ ایک بچہ آئس کریم کھاتا اپنی آئس کریم کو دیکھ نہیں سکتا‘ شاہراہوں پر حادثے ہونے لگتے ہیں‘ یہاں تک کہ ایک ہوائی جہاز کریش کر جاتا ہے کہ ایک ایک کرکے سب لوگ اندھے ہو رہے ہیں‘ بالآخر ملک کی صدر ٹیلی ویژن پر تقریرکرتی ہوئی اندھی ہوجاتی ہے‘ اندھے ہوچکے لوگوں کو ایک قید خانے میں بند کر دیاجاتا ہے تاکہ یہ بیماری جو شائد چھوت چھات کی ہے بقیہ آبادی کو اندھا نہ کردے۔صرف چند لوگ رہ جاتے ہیں جو اندھے نہیں ہوتے، بقیہ شہر ویران ہوجاتا ہے‘ کھنڈر ہوجاتا ہے‘ پھر اندھے اندھوں پر راج کرنے لگتے ہیں‘ ان پر ظلم ڈھانے لگتے ہیں‘ کرپشن کا بازار گرم ہوجاتا ہے اور ایک اندھا اپنے آپ کو بادشاہ قرار دے کر حکمرانی کرنے لگتا ہے۔چند ایک جو ابھی تک دیکھ سکتے ہیں، اندھے ان پر غالب آجاتے ہیں کیونکہ وہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور اکثریت میں ہیں۔
اگر میں نے ہو سے سراماگو کے ناول ”بلائنڈ نیس“ کاخلاصہ بیان کیا ہے تو صرف اس لئے کہ میں دیکھ سکتا ہوں۔