حادثات چاہے زمینی ہوں یا فضائی ہوں کسی نہ کسی کی غلطی تو ہوتی ہی ہے‘ پی آئی اے کو بھی کئی حادثات کا سامنا کرنا پڑا ہے‘ اس میں بہت سی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا ‘سب سے زیادہ جس حادثے میں ملک کے انتہائی قیمتی لوگوں سے ہاتھ دھونا پڑے وہ پی آئی کی پہلی پرواز جو مصر کے لئے گئی تھی ‘ اس میں ملک کے بہترین لوگ سوار تھے ‘پرواز جب قاہرہ کے قریب پہنچ چکی تھی تو اُسے حادثہ پیش آ گیا اور وہ بہترین دماغ جو اس پہلی پرواز میں مصر گئے تھے پھر کبھی نہ مل سکے ‘ اس حادثے کی کیا وجوہات تھیں اور اس کا کیانتیجہ نکلا اس کا تو ہمیں کبھی پتہ نہ چل سکا شاید اس لئے کہ ہم اُس وقت طالب علم تھے اور ہماری یونیورسٹی کے ایک بہت ہی عالم فاضل شخص اس حادثے کا شکار ہوئے تھے‘ ہمیں اُن کے فوت ہونے کا دکھ تو ضرور تھا مگر ہمارے طالب علم ہونے کی وجہ سے اس حادثے کاوہ اثر نہ ہوا جو ایک سوچنے سمجھنے والے بندے پر ہوتا ہے ‘ اس کے بعد کئی ہوائی حادثے ہوئے اور کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور ہوائی سفر چونکہ ہمیشہ بڑے لوگ ہی کرتے ہیں اس لئے ان حادثات میں انسانی جانوں کا جو نقصان ہوتا ہے وہ بھی ناقابل تلافی ہوتا ہے‘ اب یہ حادثات کیوں پیش آتے ہیں اس کا تعین عموماً نہیں ہو پاتا‘اگر کوئی زمینی حادثہ ہو تا ہے تو بروقت پتہ چل جاتا ہے کہ گاڑی میں کوئی نقص تھا یا ڈرایﺅر سو گیا تھا یا کوئی اور وجہ ہوئی مگرفضائی سفر کا کبھی پتہ نہیں چل سکتا اس لئے کہ حادثہ گواہوں کو بھی ساتھ ہی لے ڈوبتا ہے اور اسکے بعد صرف قیاس آرائیاں رہ جاتی ہیں‘ اسلئے کہ جس بھی ہوائی جہاز نے مسافروں کولے کر جانا ہوتا ہے۔
اس کی ہر طرح سے جانچ پڑتال ہو نے کے بعد ہی اسے پرواز کی اجازت ملتی ہے ‘ اس میں پائلٹ کا طبی معائنہ بھی شامل ہے َ ان جہازوں میںعموماً دو پائلٹ ہو تے ہیں جو اس کو کنٹرو ل کرتے ہیں مگرحادثے پوچھ کر نہیں آتے ‘ بعد میں قیاس آرائیاں شروع ہو جاتی ہیں کہ یہ ہوا تھا او ر وہ ہوا تھا‘کوشش یہی کرتے ہیں کہ پائلٹ کو قصور وار نہ ٹھہرایا جائے اور کوئی اور نقص جہاز میں پیدا کر کے دکھا دیا جائے کہ اس نقص کی وجہ سے حادثہ ہوا‘ ابھی عید سے قبل ایک طیارے کو کہ جو لاہور سے کراچی کے لئے اڑا اُسے کراچی ہوائی اڈے کے قریب حادثہ پیش آیا‘ اب اس حادثے کی تحقیقی رپورٹ سامنے آئی ہے کہ یہ حادثہ کیوں پیش آیا ‘ حکومتی تفتیش کے مطابق حادثے کا سبب زمینی عملہ اور پائلٹ ہیں‘ پائلٹ نے پہلے تو اپنا جہاز بغیر جہاز کے ٹائر کھولے رن وے پر اتارا اور اُس کی رگڑکے نشانات موجود ہیں‘ اس کی وجہ سے طیارے کے انجنوں کو زمین سے رگڑ کھانے کی وجہ سے بہت نقصان پہنچا‘ پائلٹ نے طیارے کو پھر سے فضا میں بلند کر دیا اور جب واپس اترنے کو مڑا تو جن انجنوں کا نقصان ہو چکا تھا وہ بند ہو گئے اور پائلٹ نے آخری پیغام دے دیا کہ طیارے کے دونوں انجنوں نے کام چھوڑ دیا ہے اور اس کے بعد طیارہ ائر پورٹ کے قریب آ بادی پر گرا اور اس میں سے صرف دو آدمی معجزانہ طور پر بچے ‘ باقی سب اللہ کوپیارے ہو گئے اور جو لوگ اپنے بال بچوں کے ساتھ عید گزارنے لاہور سے کراچی کے لئے ہوائی جہاز میںگئے تھے۔
وہ کبھی عید نہ کر سکے‘ اب جو تحقیقات میں پائلٹ اور زمینی عملے کو اس کا قصور وارٹھہرایا جا رہا ہے تو ہمارے کچھ سیاسی لیڈروں نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ پائلٹ اور زمینی عملے کو قصور وار نہ ٹھہرایا جائے ‘ اب صورت حال یہ ہے کہ جب طیارہ لاہور سے اڑا تو اس سے قبل اس کی مکمل جانچ پڑتال ہوئی کہ اس میں کوئی خرابی نہیں ہے اور جیسا کہ دیکھا جا سکتا ہے کہ رن وے پر طیارے کے گھسٹنے کے نشانات موجود ہیں کہ پائلٹ نے بغیر طیارے کے پہیے کھولے اُس کو رن وے پر اتا را تو پھر قصور کس کا ہے‘ پھر جو دوبار اُس نے طیارے کواٹھایا تو اس میں پھر قصور کس کا ہے کہ جب اُس کو معلوم ہو گیا تھا کہ اُسکے طیارے کو رگڑ کی وجہ سے کافی نقصان پہچا ہو گا تو اسے کیا کرنا چاہئے تھا اس کے لئے اُسے زمینی عملہ ہی بتاسکتا تھا اور اگر بتایا گیا ہے اور اُس نے اس پر عمل نہیں کیا تو پھر قصور تو پائلٹ کاہی نظر آتا ہے ‘ تا ہم جو تحقیقات کرنے و الوں نے نتیجہ نکالا ہے اسے ہی تسلیم کرنا ہوگا۔