سیاسی طور پر دیکھا جائے تو یہ حکومت کی بڑی کامیابی ہے کہ اپوزیشن کے اتحاد اور حکومتی اتحادیوں کی ناراضگی کے باوجود بھاری اکثریت سے بجٹ منظور کروالیا‘ اپوزیشن کا خیال تھا کہ اس بار حالات ایسے ہیں کہ حکومت سے کچھ اپنی ترامیم بھی منظور کروالیں گے بالخصوص بجٹ کی منظوری سے چند دن پہلے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کے بعد عوام اور ارکان پارلیمنٹ کی سوچ بدلی گئی تھی لیکن ایک رات پہلے عشایئے کی وجہ سے حکومتی پارٹی اور اتحادیوں کی حاضری بہت بہتر ہوگئی تھی اس لئے اپوزیشن کی کٹوتی ہر تحریک یا ترمیم مسترد ہوتی گئی اگر انصاف سے دیکھا جائے تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرکے حکومت نے یہ تسلیم کرلیا تھا کہ بہت مالی دباﺅ ہے اس سے نکلنے کیلئے فوری طورپر یہی ایک صورت تھی کہ300 ارب روپے نکالا جائے اپوزیشن کا یہ الزام غلط ہے کہ یہ اضافہ تیل مافیا کے فائدے کیلئے کیا گیا ہے اصل بات یہ ہے کہ حکومت نے اپنے ٹیکس بڑھائے ہیں اوریہ اضافی پیسے کسی کی جیب میں نہیں بلکہ خزانے میں آئینگے اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ صرف بجٹ منظور کرانے سے حکومت کی مشکلات کم نہیں ہوئیں بلکہ اس بجٹ کے ساتھ ملک چلانا اصل امتحان ہے ویسے تو اب ہمارے ہاں کئی سالوں سے بجٹ کوئی حتمی مالی ایجنڈا نہیں ہوتا ماضی میں بھی ہر حکومت کئی ضمنی بجٹ اور ٹیکسوں کی شرح میں ردوبدل کرکے سال گزارتی آئی ہے ۔
یہ مثالیں موجودہ حکومت کے بھی سامنے ہیں بلکہ ماضی میں کئی بجٹ بنانے والے ہی موجودہ بجٹ کے خالق ہیں ابتدائی طورپر چونکہ تنخواہوں میں اضافہ نہیں کرنا تھا اسلئے کوئی نیا ٹیکس بھی نہیں لگایا گیا نہ ہی کسی ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا بلکہ کئی ٹیکس ختم کئے گئے مگر جس طرح پٹرولیم مصنوعات پر لیوی اچانک بڑھا دی گئی اسی طرح مستقبل میں بھی مختلف ٹیکسز بڑھائے جاتے رہیں گے یہ زمینی حقیقت ہے اور اسکے بغیر گزارا نہیں ہوگا یہ تو اسی صورت میں بھی ہوگا کہ حالات یکساں رہے لیکن کچھ خطرات اور خدشات سیکورٹی کے حوالے سے بھی درپیش ہیں بھارت نے سفارتی جنگ چھیڑ کر اور سفارتی عملہ آدھا کرنے کی ابتداءکرکے یہ بتادیا ہے کہ اس سے کسی خیر کی امید نہ رکھی جائے اس کے ساتھ ہی واضح طورپر بھارت کے حمایت یافتہ گروپ کی طرف سے کراچی میں دہشت گرد حملہ بھی اسکے عزائم ظاہر کرتا ہے اس وقت چین کے ساتھ سرحدی تناﺅ میں بھارت کی پوزیشن خراب ہے اسی دباﺅ میں وہ اپنے عوام کو نفسیاتی طورپر مطمئن کرنے کیلئے پاکستان کے خلاف جارحیت کرسکتا ہے یہ سیدھی سی بات ہے کہ بھارت کی چین کے ہاتھوں پٹائی پر بھارتی عوام اتنے ناراض نہیں ہوتے جتنے خوش پاکستان پر کسی معمولی حملے پر ہو سکتے ہیں ۔
اگرچہ بھارت کی حکومت اور فوج کو یہ پتہ ہے کہ پاکستان پر کسی سرجیکل سٹرائیک کی صورت میں چین بھی پیش قدمی کر سکتا ہے اور پاکستان بھی جوابی کاروائی میں دیر نہیں کرے گا لیکن مودی نے اپنے عوام کو ہندوتوا کے جس پہاڑ پر چڑھا رکھا ہے انکے دباﺅ کا سامنا کرنابھی آسان نہیں اور کسی ایسی ممکنہ جارحیت کے جواب میں پاکستان کی معیشت پر زیادہ دباﺅ پڑے گا اللہ خیر کرے لیکن مکاردشمن سے نہ صرف چوکنا رہنا ضروری ہے بلکہ اپنے گھوڑے بھی تیار رکھنے پڑتے ہیں لیکن ایسا نہیں بھی ہوتا تو ابھی کورونا کا دباﺅ کم نہیں ہوا ہے بلکہ اگست تک بھی شدت کا امکان ہے اگرچہ اب لاک ڈاﺅن بھی نہ ہونے کے برابر ہے اورلوگوں کی مدافعت بھی بڑھ رہی ہے لیکن کاروباری اور صنعتی حلقے اب بھی پورا ٹیکس دینے کی پوزیشن میںنہیں ہیں اورحکومت ان سے لڑائی لڑنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے اس لئے سال کے دوران کئی بار پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی ضرورت پڑے گی اور یہ واحد ایسی چیز ہے کہ اس کا اثر ہر ضرورت کی چیز پر پڑتا ہے لیکن کیاکیا جائے کچھ حکومت کی مجبوریاں ہیں اور عوام تو ہمیشہ سے مجبور محض ہیں اسلئے گزارا کرنا ہی پڑے گا۔