شمالی علاقہ جات میں ٹورازم کارپوریشن کے تمام ہوٹلز بند، ملازمین فارغ


 پاکستان ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (پی ٹی ڈی سی) نے ملک کے شمالی علاقہ جات میں موجود تمام ہوٹلز بند کرتے ہوئے ملازمین کو فارغ کردیا۔

اس ضمن میں ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ کارپوریشن مسلسل نقصانات برداشت کررہی تھی جس کی وجہ سے یہ فیصلہ لینے پر مجبور ہوئی۔

نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا کہ ’وسائل نہ ہونے، مسلسل اور ناقابل تلافی مالی نقصانات اور موجودہ کووِڈ 1*9 کی وبا کی وجہ سے وفاقی حکومت اور پی ٹی ڈی سی بورڈ آف ڈائریکٹرز نے متفقہ طور پر کمپنی کے افعال بند کرنے کا فیصلہ کیا‘۔

نوٹیفکیشن کے مطابق یہ فیصلہ موجودہ صورتحال کا گہرائی سے جائزہ لینے اور کمپنی کی صورتحال اور حقائق پر غور کرتے ہوئے ملازمین، کمپنی اور شیئر ہولڈرز کی بقا اور مستقبل کے بہترین مفاد میں اٹھایا گیا۔

حکام کا کہنا تھا کہ کمپنی کے پاس یہ تکلیف دہ فیصلے کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔

مذکورہ فیصلے پر ردِعمل دیتے ہوئے ٹوور آپریٹر نے اسے سیاحت کی صنعت کے لیے بہت بڑا دھچکا قرار دیا۔

اس حوالے سے پاکستان ایسوسی ایشن آف ٹورازم آپریٹرز کے صدر مقصودالملک نے کہا کہ پی ٹی ڈی سی کے ہوٹلز سیاحوں کے لیے بہترین مقامات پر واقع ہیں جہاں وہ آرام کرسکیں اور اگلی صبح شمالی علاقہ جات میں مزید سفر کریں۔

انہوں نے کہا کہ ’ایک طریقے سے حکومت نے باضابطہ طور پر مقامی اور بین الاقوامی سیاحوں کو بتا دیا ہے کہ چترال، گلگلت، سوات میں ، خیبرپختونخوا اور ناران میں ٹھہرنے کی کوئی جگہ نہیں۔

پورے شمالی علاقہ جات میں 24 سے 25 ہوٹلز یا ریسٹورنٹس کو بند کردیا گیا جو کارپوریشن کی جانب سے گزشتہ برس مارچ میں بند کیے گئے ’مسائل کا شکار‘ 6ہوٹلز اور ریسٹورنٹس کے علاوہ ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس پی ٹی ڈی سی نے پنجاب میں ٹیکسلہ، خیبرپختونخوا میں چھتر، گلگت بلتستان میں استک، بلوچستان میں خضدار، خیبرپختونخوا میں چکدرہ اور اسلام آباد کے دامنِ کوہ ریسٹورنٹ کو بند کردیا تھا۔

مقصودالملک کا کہنا تھا کہ ’یہ حوصلہ شکن خبر ہے بالخصوص جب حکومت ملک میں سیاحت کا فروغ چاہتی ہو اور وزیراعظم اس مقصد کے لیے نیشنل ٹورازم کووآرڈنیشن بورڈ بھی تشکیل دے رہے ہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ صوبوں کے پاس سیاحت کے فروغ کے لیے وسائل نہیں ہیں اس لیے وفاقی حکومت کو پی ٹی ڈی سی اور تمام مقامات کو برقرار رکھنا چاہیئے۔

اس ضمن میں الپائن کلب پاکستان کا کہنا تھا کہ سیاحوں کے نقطہ نظر سے پی ٹی ڈی سی ہوٹلز قائم کیے گئے اور احتیاط سے ان مقامات کا انتخاب کیا گیا تھا جہاں وہ اپنی منزل پر پہنچنے سے قبل خاصہ فاصلہ طے کرنے کے بعد رک سکیں اور آرام کرسکیں۔

دوسری جانب این ٹی سی بی کے رکن آفتاب رانا کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد ہوٹلز کو بند کردیا گیا تھا جبکہ یہ فیصلہ بھی کیا ہوچکا تھا کہ حکومت کارپوریشن کے کاروباری طریقے سے الگ ہوجائے گی اور اس کی جائیدادوں کی نجکاری کر کے صرف سیاحت کو فروغ دے گی۔

انہوں نے بتایا کہ پی ٹی ڈی سے نے ملازمین کے لیے ایک ارب 40 کروڑ ڈالر کے گولڈن ہینڈ شیک پیکج کا اعلان کیا تھا لیکن بدقسمتی سے ملازمین یہ معاملہ عدالت میں لے گئے جہاں اب تک زیر التوا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کارپوریشن کو تقریباً ایک ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے اور یہ صرف غیر پیداوار عملے کو ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے تنخواہوں کی ادائیگی کررہی ہے اور ان جائیدادوں کے ذریعے کوئی آمدن نہیں ہورہی۔

آفتاب رانا کا مزید کہنا تھا کہ ان آپریشنز کو بند کرنا ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن یہ تمام چیزیں مدِ نظر رکھتے ہوئے حکومت نے پی ٹی ڈی سی کی تمام جائیدادوں کی نجکاری اور آپریشن بند کرنے کا فیصلہ کیا۔