ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے!

بلوچستان کے ایک سابق وزیر اعلیٰ کی کہی ہوئی یہ بات کہ ڈگری توڈگری ہوتی ہے چاہے جعلی ہو یا اصلی“ لگتاہے ہمارا قومی بیانیہ بن چکا ہے ہر منصب اور عہدے کیلئے ایک خاص تعلیمی معیار مقرر ہوتا ہے جس کاکسی مستند تعلیمی بورڈ یا یونیورسٹی کی طرف سے جاری کردہ سند یا ڈگری سے ہی پتہ چلتا ہے جعلی سازی تو خیر بہت پرانا شعبہ ہے اور پروفیشنل تعلیم کی جعلی ڈگریاں بہت عرصہ سے چل رہی ہیں لیکن اس غیر اخلاقی اور غیر قانونی حرکت کو قومی درجہ اس وقت ملا جب سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے پارلیمنٹ اور بلدیاتی اداروں کے الیکشن لڑنے کیلئے تعلیم کی شرط رکھی اگرچہ یہ کوئی ایسا مشکل ہدف نہیں تھا پارلیمنٹ کے لئے گریجویشن اور بلدیاتی ناظمین کیلئے میٹرک تک تعلیم کوئی بہت بڑی شرط نہیں تھی لیکن معلوم ہوا کہ ہماری پیشہ ور سیاستدانوں کی ایک پوری کھیپ ہی تعلیم سے متنفر ہے، اس وقت متاثرہ سیاستدانوں نے بھی اس فیصلے کی تعریف کی اور اسکو پارلیمنٹ کی توقیر و ساکھ میں اضافے کا باعث قرار دیاگیا لیکن اکثر ناگزیر اور مستقل رکن پارلیمنٹ رہنے والوں نے یہ شرط پوری کرنے کیلئے چور دروازے تلاش کرنا شروع کردیئے ‘ بہت سارے ایسے بھی تھے جنہوں نے کاغذات نامزدگی میں چھ سالہ درس نظامی کی سندھ پیش کی اور کچھ ایسے بھی تھے جنہوںنے دینی سندکی بجائے یونیورسٹیوں کی جعلی ڈگریاں حاصل کرلیں اور زیادہ پیسے والے تو غیر ملکی ڈگریاں بھی لے آئے جس کی اصلیت جاننے کیلئے بھی مشکل طریقہ کار ہے بہرحال2002 کے الیکشن میں بلامبالغہ50 امیدوار جعلی ڈگریوں والے تھے۔

 انتخابات کے بعد عذدرداریوں میں یہ معاملہ بھی ٹریبونل کے سامنے آیا اور اس طرح آہستہ آہستہ ڈگریوں کی اصلیت کھلنے لگی لیکن ماتحت عدالت سے نااہل قرر پانے والے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ سے سٹے اور ریلیف لیتے لیتے مدت پوری کرگئے لیکن اس ساری مشق میں جعلی تعلیمی اور پروفیشنل ڈگریوں کا خوف ختم ہوگیا ہے اگر آئین ساز یہ جعل سازی کرسکتے ہیں تو نوکری کیلئے عوام کو ایسا کرنے سے کیا خوف ہو سکتا تھا اسلئے سفارش والوں نے اچھی نوکریوں کیلئے یہ شارٹ کٹ دریافت کرلیا اگر صرف کلرک یا سٹاف ڈرائیور کیلئے جعلی اسناد تک بات رہتی تو چل بھی جاتی لیکن زیادہ تنخواہوں کے لالچ میں ڈاکٹر‘ انجینئر اور پائلٹ تک کی ڈگریاں اور لائسنس جعلی حاصل کرکے اعلیٰ اداروں میں بھرتی کرانے کا سلسلہ شروع ہوگیا اب رمضان میں ہونیوالے ایک فضائی حادثے کی تحقیق و تفتیش میں یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ پاکستان کی قومی ائرلائن میں260 سے زائدہوابازوں کے لائسنس جعلی ہیں یا جعلی اسناد پر حاصل کئے گئے ہیں اس سے پہلے جعلی ڈگریوں والے افسروں کی نشاندہی ہو چکی تھی اور انکے خلاف کاروائی پر تنازعہ چل رہا تھا۔

 پی آئی اے ان کو برطرف کرنا چاہتی تھی لیکن انکو بھرتی کرانے والے ان کی حمایت میں تھے اب پائلٹس اورائرونائیکل انجینئر کا معاملہ سامنے آنے پر دنیا بھر میں پی آئی اے بدنام ہوگئی ہے اسکی پروازیں روک دی گئی ہیں بلکہ اب تو غیر ملکی ائر لائنز میں کام کرنے والے پائلٹس کی پوزیشن بھی مشکوک ہوگئی ہے بلکہ اب تو اصلی ڈگریاں اور لائسنس رکھنے والوں کو بھی تصدیق کے ناخوشگوار عمل سے گزرنا پڑے گا لیکن دیکھا جائے تو اس سارے عمل میں اچھی نوکری کیلئے جعلی ڈگریاں حاصل کرنے والوں سے زیادہ قصور وار وہ لوگ ہیں جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ جس کی سفارش کر رہے ہیں اس کے پاس ڈگری جعلی ہے نہ صرف ان بھرتی کراتے رہے بلکہ ان کا دفاع بھی کر رہے ہیں ‘ سفارش کرنے والوں کو حقیقت پتہ ہوتی ہے اور جان بوجھ کر سفارش کرتے ہیں اسلئے جعلی ڈگریوں پر بھرتی ہونے والوں کے ساتھ ان کو بھرتی کرنے اور سفارش کرنے والوں کو بھی سزا دی جائے تو شاید انصاف کے تقاضے پورے ہوں اور بات صرف چند سو پائلٹس تک محدود نہیں بلکہ ہر جگہ اس جعل سازی کے کرشمے موجود ہیں۔