احتیاط ضروری ہے

عمران خان نے اپنی سیاست کا آغاز اس مفروضے پر کیا کہ سیاست دان جو آج تک حکومتیں کرتے آئے ہیں وہ سارے کرپٹ تھے اور انہوں نے ملک کی یہ حالت کر دی کہ ملک اتنا مقروض کو چکا ہے کہ کل کلاں اسے گروی رکھناپڑے گا۔ اس کے لئے ایک ایسی شخصیت کا حکومت میںآنا لازمی ہے کہ جو صرف ملک کا سوچے اور وہ کسی طرح بھی خود کو یا اپنے ساتھیوں کو کرپشن میں ملوث نہ ہونے دے۔ایک بہت ہی نیک خیال تھا اور اس ملک کے عوام ،سچی بات ہے ،کہ ایسے حکمرانوں سے واقعی تنگ تھے جنہوںنے اس ملک کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ اسیلئے سابقہ الیکشن میں لوگوں نے زیادہ تر تبدیلی کو ہی ووٹ د یئے اورخان صاحب اقتدار میں آ گئے۔ اب جوٹیم ان کو ملی ہے وہ اُن ہی سیاست دانوں پر مشتمل ہے کہ جنہوں نے، بقول خان صاحب ، اس ملک کو تباہ کیا ہے۔ مگر کیا کیاجائے کہ سیاست کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں ایسا کرنا پڑتا ہے اس لئے کہ جمہوریت گنتی کا کھیل ہے اور اگر آپ کی گنتی کم ہے تو آپ حکومت نہیں کر سکتے اسی لئے جب سیاسی لوگوں نے دیکھا کہ ہوا خان صاحب کی جانب چل
 رہی ہے تو وہ جوق در جوق خان صاحب کی پارٹی میں شامل ہونے لگے اورانہیں بھی ایسے لوگوںکی ضرورت تھی کہ جو الیکٹ ہونے کے قابل تھے خیر ہوا یہی کہ خانصاحب کی حکومت قائم ہو گئی اور خان صاحب کا نعرہ آج دو سال بعد بھی یہی ہے کہ سیاست دانوںاورخصوصاًشریف خاندان اور زرداری خاندان نے اس ملک کو لوٹ کھایا ہے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ شریفوں اور زرداریوں نے اس ملک کے اداروں میں اپنی مرضی کے لوگ بھرتی کرکے اداروں کو تباہ کر دیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا ہی ہو مگر یہ کسی حد تک ہی درست ہو سکتا ہے۔

 اگر کسی کی سفارش یا کسی کا منہ دیکھتے ہوئے اداروں میں کسی کو کلرک ، چپڑاسی یا کوئی اور نان ٹیکنکل جاب پر اگر بھرتی کر بھی لیا ہو گا تو یہ ادارے کی عام کارکردگی پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی ادارے میں ایک میٹرک فیل کو انجینئر بھرتی کر لیا گیا ہو یا جیسا کہ آج کل پی آئی اے زیر بحث ہے اس میں کسی ان پڑھ کو سفارش پر پائلٹ بھرتی کر لیا گیا ہو۔ اس میں یہ البتہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص پائلٹ بھرتی ہونے کے لئے اپنا کوئی سرٹیفکیٹ جعلی بنوا لایا ہو اور بھرتی ہو گیا ہو مگر اس کے بعد تو اُس کی ٹریننگ کا مرحلہ ہوتا ہے وہ وہاں سے چھانٹی ہو کر نکل گیا ہو گا۔ تاہم کوئی اگر ایک آدھ بچ بھی گیا ہے تو اس کا ڈھنڈورا نہیں پیٹنا چاہئے تھا۔ اس سلسلے میں احتیاط کی ضروت تھی۔ پی آئی اے چونکہ ہمارا قومی ادارہ ہے اور اس کے روابط پوری دنیا سے ہےں کہ اس کے طیارے ساری دنیا میں پرواز کرتے ہیں اگران کے ہاں کوئی کمزری تھی تو وزیر موصوف کو معلوم ہونا چاہئے تھا کہ اس کا انجام کیا ہو گا۔ جب ایک ملک کا وزیر اسمبلی میں کھڑا ہو کر یہ کہے کہ اُس کے ادارے پی آئی اے میں بوگس سرتٹیفیکیٹس پر پائلٹ بھرتی ہو گئے ہیں اور جہاز بھی اڑا رہے ہیں تو وہ ادارہ کہ جس کو پہلے بھی دنیا کے ممالک میں سختیوں کا سامنا ہے جب وزیر صاحب اس بات کو اچھالیں گے تو اس کا انجام کیا ہو گا۔ ، دیکھا جائے تو ہمارے جو وزیر اس کابینہ میں ہیں ۔

ان کا ننانوے فی صد حصہ تو سابقہ حکومتوں کا حصہ رہا ہے۔ اور وزیر ہوابازی خود سابقہ دورکی تین حکومتو ں کا حصہ رہے ہیں تا ہم انہوںنے ایک بات کر تو دی مگر اس کا انجام کیا ہوا ۔جس دن انہوں نے اعلان کیا کہ ان کے ادارے میں بوگس پائلٹ کام کر رہے ہیں تو اس شا م کو کویت او ر یو اے ای کی حکومتوں نے اُ ن پاکستانی پائلٹوںکو گراو¿نڈ کر دیا جو ایک عرصے سے اُن کے جہاز اڑا رہے تھے۔ اب ایسا ہے کہ یورپ نے بھی پی آئی اے کے جہازوں کو اپنے ملک میں آنے سے منع کر دیا ہے اور انگلینڈ نے بھی پی آئی اے پر پابندی لگا دی ہے۔اب جتنا نقصان اس ادارے کووزیر ہوا بازی کی دیانت داری نے پہنچایا ہے اس کی تلافی کون کرے گا۔ اگر وزیر موصوف کو معلوم ہو ہی گیا تھا کہ کوئی پائلٹ پی آئی اے میں غلط بھرتی ہو گئے ہیں تو اُن کو اپنی جگہ تحقیق کر کے نکال دینا تھا مگر ڈھنڈوراپیٹنے سے جو نقصا ن اُ س ادارے کا ہوا کہ جو پہلے سے خسارے میں جا رہاہے تو اس کا ازالہ کون کرے گا۔ ماضی کی لکیروں کو پیٹنے کی بجائے اب ایک مستقل پالیسی کی ضرورت ہے تاکہ آنے والے وقتوں میں کسی بھی ادارے میں نااہل افراد بھرتی نہ ہو سکے اور جس طرح موجودہ حالات میں ایک قومی ادارے کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے آئندہ ایسا نہ ہو۔