کوئی حل بھی ہو!

 کافی دنوں سے سیاست دانوں نے ایک عادت بنا لی ہے کہ بجائے اسمبلی میں بات کرنے اور مسائل کو حل نکانے کے انہوںنے پریس کانفرنسوںاور ٹویٹروں کا سہارا لیاہوا ہے ۔ ایک بات کہ جس ملک میںستر فیصد آبادی بجلی سے ہی محروم ہو اور جہاں بجلی ہے بھی وہاں ہر شخص کے پاس ٹی وی کی سہولت نہیں ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کے ٹویٹ یا آپ کی پریس کانفرنس سے ملک کا ستر فی صد سے زیادہ حصہ تو مستفید ہی نہیں ہو سکتا ۔ اس کا مطلب یہ کہ آپ صرف کچھ لوگوں کے لئے پریس کانفرنسیں کرتے ہیں اور ان کانفرنسوں میں ایک بھی کام کی بات نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ فلاں کی وجہ سے فلاں بحران پیدا ہوا ہے ۔ فلاں حکومت کی وجہ سے ہماری حکومت کو تکلیف اٹھانی پڑرہی ہے۔ اگر یہی باتیں قومی اسمبلی میں کی جائیں اور ان کو حل تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو ملک کا بھی فائدہ ہے اور بہت سے مسائل حل بھی ہو سکتے ہیں۔ ؟ ان پریس کانفرنسوں میںجو زبان استعمال ہو رہی ہے اس سے ہمارے اگلی نسل (جن کے پاس ٹی وی وغیرہ کی سہولت موجود ہے ) نے کتنا فائدہ اٹھایا۔ اگر یہی مسائل اسمبلی کے فلور پر ہوں اور اس میں مباحثے کے اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو ملکی مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔ ادھر اسمبلی کی یہ حالت بنا دی گئی ہے کہ کوئی بھی آدمی اس اسمبلی میں بیٹھ کر ایک بھی تقریر نہیں سن سکتا اس لئے کہ بجائے مسائل پر بات کر نے اور سننے کے ایک دوسرے کے ساتھ بد زبانی کی جاتی ہے۔ مسئلہ کچھ اور ہوتا ہے مگر اس کا حل ڈھونڈنے کی بجائے ایک دوسرے کے گریبان پھاڑے جاتے ہیں۔

ہوتا یہ ہے کہ مختلف ممالک کی اسمبلیوں میں بھی ایسے واقعات دیکھنے میں آتے ہیں کہ کسی مسئلے پر بحث کے دوران ہاتھا پائی تک بھی نوبت آ جا تی ہے مگرپھر اس کا حل بھی فوراً ہی تلاش کر لیا جاتا ہے۔ یہ اُس صورت میںہوتا ہے کہ آپ تواتر سے اسمبلی کے سیشن کریں اور دل کی بھڑاس نکالنے کی بجائے مسائل کے حل کی طرف نکلنے کی کوشش کریں تو ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ جب یہی اراکین اسمبلی ایک دسرے کے گریبان پھاڑنے کی بجائے ملکی مسائل کے حل کی طرف آ جائیں گے۔ بات صرف اتنی ہے کہ ہمارے ہاں مسائل اس طرح کے رہے ہیں کہ کسی بھی سابقہ حکومت کو جم کر عوام کے مسائل کو دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ملی۔ ایک حکومت جس کو دن میں دس دس شہروں میں دھماکوں کا سامنا ہو وہ کیا ملکی مسائل یا عوام ی طرف توجہ دے پائے گی اُس کو تو عوا م کو دھماکوں سے بچانا ہی بڑا کام تھا ۔ مگر ہمارے موجودہ حکمران کہ جن کو ایک پر امن پاکستان ملا ہے بجائے عوام کے مسائل حل کرنے کے دو سال سے صرف گزشتہ حکومتوں کو ہی کوسنے میں لگے ہیں۔ آپ پچھلی حکومتوں کو کوسنے کی بجائے دل لگا کر عوام کی بہتری کے لئے کام کریں۔حکومت کوئی بھی ہو اس میں اچھے برے سارے ہی لوگ ہوتے ہیں ۔ اب اگر حکومت کو اچھے لوگ اور اچھا وقت مل گیا ہے تو اسے کانفرنسوں میں ضائع نہ کریں بلکہ عوام کی فلاح کا سوچیں ¾ آج کل ایک بڑی آفت کا سامنا ہے کتنی بڑی بڑی ہستیاں ہم سے چھن رہی ہیں جس پر قابو پانے کے لئے مشترکہ کوششیں وقت کی اہم ضرورت ہے¾ ہر روز ایک دوسرے کو لعن طعن کرنے سے عوام کے مسائل حل نہیں ہوتے مہربانی کریں اور مسائل نہیں مسائل کے حل کی طرف دھیان دیں اور ان کا حل نکالیں۔