پی آئی اے مالی بحران اورجعلی لائسنسوںکاقضیہ

کراچی میں پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن (پی آئی اے) کے طیارے کو پیش آنے والے حادثے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ حادثہ انسانی غلطی کی وجہ سے پیش آیا؛ رپورٹ چار رکنی تحقیقاتی ٹیم نے مرتب کی ہے جس کی سربراہی ائیر کموڈور محمد عثمان غنی نے کی ونگ کمانڈر ملک محمد عمران، گروپ کیپٹن توقیر اور ناصر مجید تحقیقاتی ٹیم کے ارکان میں شامل تھے۔ادھر وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ قوم سے وعدہ کیا تھا کہ طیارہ حادثے کی رپورٹ پیش کروں گا‘انہوں نے کہا کہ طیارہ حادثے کی رپورٹ تیار ہو گئی ہے۔ وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا طیارے کے پائلٹ طبی طور پر جہاز اڑانے کیلئے فٹ تھے، انہوں نے دوران پرواز کسی قسم کی تکنیکی خرابی کی نشاندہی نہیں کی، ابتدائی رپورٹ کے مطابق طیارہ پرواز کیلئے 100 فیصد فٹ تھا، جہاز لینڈنگ کے وقت 7220 فٹ کی بلندی پر تھا، کنٹرولر نے 3 بار پائلٹ کی توجہ اونچائی کی جانب دلوائی، یہ ریکارڈ پر ہے کہ جہاز کے لینڈنگ گیئر کھولے گئے۔غلام سرور کا کہنا تھا 10 ناٹیکل مائل پر جہاز کے لینڈنگ گیئر کھولے گئے، 5 ناٹیکل مائل پر لینڈنگ گیئر دوبارہ بند کیے گئے، جہاز رن وے پر رگڑے کھاتا رہا، انجن کافی حد تک متاثر ہوا، پائلٹ نے جہاز کو دوبارہ اڑایا، کوئی ہدایت نہیں لی، پائلٹس نے ایئر ٹریفک کنٹرول کی ہدایات کو نظرانداز کیا، عبوری تحقیقات رپورٹ میں کنٹرول ٹاور اور پائلٹ کی کوتاہی سامنے آئی، اے ٹی سی نے جہاز کے رگڑ کھانے کے بعد بھی ہدایات نہیں دیں۔وفاقی وزیر نے مزید کہا بدقسمتی سے پائلٹ طیارہ کو آٹو لینڈنگ سے نکال کر مینوئل لینڈنگ پر لایا، وائس ریکارڈر سے پتہ چلا پائلٹس آخر تک کورونا کی گفتگو کرتے رہے، پائلٹ اور کوپائلٹ کے فوکس نہ ہونے پر سانحہ پیش آیا، چترال طیارے کا واقعہ بھی تکنیکی خرابی کی وجہ سے پیش آیا، پائلٹس کی جعلی ڈگریاں بھی ایک بدقسمتی ہے، ماضی میں پائلٹس کی جعلی ڈگریوں پر تعیناتیاں سامنے آئیں، پاکستان میں ٹوٹل 860 ایکٹو پائلٹس ہیں۔غلام سرور خان کا کہنا تھا تحقیقات پر پتہ چلا متعدد پائلٹس کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا، 860 میں سے 262 پائلٹس نے خود امتحان نہیں دیا، نچلے درجے کا اسٹاف، پائلٹ، ایڈمن تمام سٹاف شامل ہے، جعلی لائسنس والے پائلٹس کیخلاف ایکشن شروع ہوگیا، پی آئی اے کی نجکاری نہیں کریں گے۔وزیر ہوا بازی نے کہا کراچی طیارہ حادثے کے دن ہی انکوائری کمیشن تشکیل دیا گیا، انکوائری بورڈ نے احساس ذمہ داری ادا کرتے ہوئے فرائض منصبی ادا کئے، انکوائری بورڈ نے جہاز کے تمام ملبے کا معائنہ کیا، فرانسیسی ٹیم 26 مئی کو پاکستان آئی، انکوائری بورڈ میں پائلٹس کی نمائندگی نہیں تھی، ہم نے انکوائری بورڈ کو وسیع کیا اور ایئر بلیو کے 2 سینئر پائلٹس کو بورڈ کا حصہ بنایا۔غلام سرور خان کا کہنا تھا یہاں پر 6، 6 سال طیارہ حادثوں کی رپورٹس پیش نہیں کی جاتیں، کراچی طیارہ حادثے پر انکوائری شفاف طریقے سے جاری ہے۔ادھر انٹرنیشنل فیڈریشن کا کہنا ہے کہ تحقیقاتی رپورٹ کو الزام اور بہتان تراشی کے لئے استعمال کرنا ٹھیک نہیں ہے۔آئی ایف اے ٹی اے کے مطابق فضائی حادثات کی تحقیقات کا مقصد مستقبل کے سانحات سے بچانا ہوتا ہے۔

انٹرنیشنل فیڈریشن کا مزید کہنا تھا کہ تحقیقاتی رپورٹ پرانتظامی، تنظیمی یاعدالتی کاروائی نہیں کی جاسکتی۔آئی ایف اے ٹی اے نے کہا کہ فضائی حادثے کی جاری تحقیقات پرعبوری رپورٹ سے اثرات پڑسکتے ہیں، حادثے کی وجوہات پر قبل از وقت رائے قائم نہ کی جائے۔ادارے کا کہنا ہے کہ تحقیقات میں مداخلت سے حادثات کی روک تھام متاثر ہوتی ہے، اتھارٹیزاورمیڈیا کو حادثے کی تحقیقات کے مکمل ہونے کا انتظار کرنا چاہیے۔خیال رہے کہ قومی ایئر لائن پی آئی اے کے طیارے کو پیش آنے والے حادثے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں کپتان اور ایئر ٹریفک کنٹرولر کو حادثے کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان کے بیان نے بالآخر وہ کام کردیا جو شاید کوئی غیر بھی نہیں کرسکتا تھا۔ قومی اسمبلی میں پائلٹس کے لائسنس کے حوالے سے دئیے گئے بیان کو بنیاد بناکر یورپین یونین ایئر سیفٹی ایجنسی (ایاسا)نے پی آئی اے پر آئندہ 6 ماہ کے لیے اپنی حدود میں پروازوں پر پابندی عائد کردی ہے۔ایاسا نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پی آئی اے پر پابندی کا فیصلہ وزیر ہوابازی کے اس بیان کے بعد کیا گیا ہے جس میں انہوں نے یہ انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں جاری ہونے والا ہر تیسرا پائلٹ جعلی لائسنس یافتہ ہے۔لیکن اس اعلان کے بعد فوری طور پر پاکستان نے یورپی حکام سے رابطہ کیا ہے جس کی وجہ سے یورپی یونین نے فلائٹ آپریشن میں3جولائی تک توسیع کردی۔وفاقی وزیر نے اس بیان کو دینے کے لئے اس وقت کا انتخاب کیا جب ایئر بس اے 320 کی پرواز پی کے 8303 کریش کی عبوری رپورٹ جاری ہورہی تھی۔ شاید وہ اس کریشن کی رپورٹ کو بنیاد بناکر پائلٹس کے خلاف کوئی مہم شروع کرنا چاہتے تھے اور انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہ کس سمت معاملے کو لے جارہے ہیں۔ یاد رہے کہ اس بیان کے بعد متحدہ عرب امارات نے بھی 50 سے زائد پاکستانی پائلٹس کے لائسنس کی تصدیق کے لئے پاکستان سول ایوی ایشن سے رابطہ کرلیا ہے۔دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی پائلٹس کو لائسنس جاری کرنے کا ایک مربوط نظام موجود ہے اور یہ نظام شہری ہوا بازی کے ریگولیٹر کے ماتحت کام کرتا ہے۔ یہ نظام کیسے کام کرتا ہے؟ اس نظام میں کیا تبدیلیاں کی گئی ہیں؟ اور کس طرح یہ نظام کرپشن کا شکار ہوا اس پر آج کی تحریر میں جائزہ لیں گے۔کوئی بھی نوجوان جو ایوی ایشن کی صنعت میں بطور پائلٹ اپنا پروفیشنل کیریئر شروع کرنا چاہتا ہے تو انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد اس کو سول ایوی ایشن کا وضع کردہ میڈیکل ٹیسٹ پاس کرنا ہوتا ہے۔طبی معائنے میں پاس ہونے کے بعد وہ نوجوا ن فلائنگ سکول میں داخلہ لینے کا اہل بن جاتا ہے۔ مرتب کردہ کورس کے مطابق 3 ماہ تک زمین پر تربیتی عمل شروع کیا جاتا ہے۔ پائلٹ کو ایوی ایشن سے متعلق بنیادی تعلیم کلاس رومز میں دی جاتی ہے۔ جس میں تکنیکی کے علاوہ سیفٹی اور ایوی ایشن قوانین شامل ہوتے ہیں۔ان 3 ماہ کی تربیت اور 3 گھنٹے فلائنگ کے بعد پہلا لائسنس مل جاتا ہے جس کو سٹوڈنٹ پائلٹ لائسنس یا ایس پی ایل کہا جاتا ہے۔ اس لائسنس کو حاصل کرنے کے بعد مزید پڑھائی اور 40 گھنٹے پرواز مکمل کرنے پر وہ پرائیویٹ پائلٹ لائسنس یا پی پی ایل کا اہل ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد 200 گھنٹے کی پرواز مکمل کرنے پر سول ایوی ایشن اتھارٹی کمرشل پائلٹ لائسنس یا سی پی ایل جاری کرتی ہے۔اس لائسنس کے اجرا کے لئے پائلٹ کو 8 تحریری امتحانات بھی دینا ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ انسٹرومنٹ ریٹنگ کا عملی امتحان دینا ہوتا ہے۔ اس امتحان کے پاس کرنے کے بعد نوجوان لڑکا یا لڑکی سی پی ایل لائسنس حاصل کر لیتے ہیں اور کسی بھی ایئر لائن میں بطور کیڈٹ پائلٹ ملازمت کرسکتے ہیں۔ سی پی ایل کے ساتھ پائلٹس سنگل انجن ایئر کرافٹ کو اکیلے اڑا سکتے ہیں، مگر 2 انجن والے طیارے یا 6500 کلو گرام سے وزنی طیارے کو بطور پائلٹ وہ آپریٹ نہیں کرسکتے لیکن ہاں، وہ معاون پائلٹ کے طور پر کام ضرور کرسکتے ہیں۔پی آئی اے میں کیڈٹ پائلٹ کو بنیادی تربیت دینے کے بعد سب سے پہلے اے ٹی آر طیارے پر فرسٹ آفیسر تعینات کیا جاتا ہے اور وہ طیارے کی دائیں والی نشست جو فرسٹ آفیسر کے لئے مختص ہوتی ہے، وہاں سے جہاز کو آپریٹ کرتا ہے۔ اے ٹی آر سے ایئر بس 320 اور پھر بوئنگ 777 طیاروں پر فرسٹ آفیسر تعینات کیا جاتا ہے۔فرسٹ آفیسر سول ایوی ایشن کے قوانین کے مطابق پائلٹ تقریباً 16سے 18سال تک بطور معاون پائلٹ پرواز کرتے ہوئے اپنے گھنٹے مکمل کرلیتا ہے اور یوں وہ کپتان بننے کے لئے تحریری امتحان دینے کا اہل ہوجاتا ہے۔ اس تحریری امتحان میں سو سوالات پر مشتمل 8 پرچے دینا ہوتے ہیں‘پاکستان میں پائلٹس کی تربیت کے لئے کوئی مقامی طور پر تیار کردہ نصاب موجود نہیں ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد پائلٹس کی تربیت کے لئے امریکی فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن کے مرتب کردہ کورس کو اپنایا گیا تھا، جس کی بنیاد پر پورا تربیتی نظام مرتب کیا گیا۔سال 2009 تک یہی کورس لاگو رہا اور اس کے تحریری امتحانات سول ایوی ایشن میں ہوا کرتے تھے۔ پائلٹس کو یہ پرچے کاغذ پر حل کرنے ہوتے تھے جس کا نتیجہ ایک ہفتے میں ملتا تھا۔ اگر پائلٹ 70 فیصد تک نمبر لینے میں کامیاب ہوجائے تو اس کو پاس قرار دیا جاتا ہے جبکہ فیل ہونے کی صورت میں مزید ایک ماہ پڑھائی کے لئے دیا جاتا تھا۔سال2010 سے سول ایوی ایشن نے نہ صرف پائلٹس کی تربیت کےلئے بنیادی کورس میں تبدیلی کرتے ہوئے امریکی نصاب کے بجائے یورپی یونین کی ایوی ایشن سیفٹی کا تیار کردہ کورس متعارف کروا دیایہ تبدیلی اس قدر اچانک تھی کہ فلائنگ سکول کو نہ تو اپنے انسٹرکٹرز کو تربیت دینے کا موقع ملا اور نہ ہی پائلٹس کو، جو طویل عرصے سے امریکی کتابوں کو پڑھ رہے تھے اور پھر اچانک ان کو یورپی کتابوں کا پلندہ پکڑا دیا گیا۔ ایک اور پریشانی یہ ہوئی کہ جنہوں نے معاون پائلٹ کے لئے امریکی نصاب پر تربیت حاصل کی تھی اب کپتان بننے کے لئے انہیں یورپی نصاب کے تحت امتحان دینے پڑگئے، جس نے ان کے لئے کئی مسائل کو جنم دیا۔ اس نظام میں ایک اور تبدیلی یہ بھی آئی کہ سول ایوی ایشن نے فیل ہوجانے والوں کےلئے ایک ماہ تیاری کی شرط بھی ختم کردی اور اب وہ اگلے ہی گھنٹے دوبارہ امتحان میں پیش ہوسکتے ہیں، یعنی بس فیس بھرتے جائیں اور امتحان دیتے جائیں۔پائلٹس کا کہنا ہے کہ جس کسی کے پاس بھی فلائنگ کا لائسنس ہے وہ سول ایوی ایشن کا جاری کردہ ہے۔ سول ایوی ایشن میں پائلٹس کا پرسنل ڈیپارٹمنٹ موجود ہے جہاں پائلٹس کا تمام ریکارڈ فلائنگ سکول سے لے کر اب تک کی تاریخ کا محفوظ کیا جاتا ہے اور لائسنس کی تجدید کے لئے ہر 6 ماہ بعد پائلٹ کو سول ایوی ایشن کے متعلقہ شعبے میں ذاتی طور پر پیش ہونا ہوتا ہے۔دوسری طرف ایوی ایشن ڈویژن نے یہ سمجھے بغیر کہ مشکوک اور جعلی میں فرق کیا ہے، اور تمام پائلٹس کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش کی اور یہی وہ غلطی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی ایوی ایشن صنعت کو دباﺅ اور پریشانی کا سامنا ہے۔پائلٹس کا کہنا ہے کہ جو فہرست بنی ہے اس میں اکثر پائلٹس کے ایک یا دو پیپرز کو مشکوک قرار دیا گیا ہے۔ اب اگر کسی نے کرپشن سے پاس ہی ہونا ہے تو وہ تمام پرچوں میں کیوں نہیں یہ کرپشن کرتا؟حکومت نے پی آئی اے کے 141 پائلٹس کے لائسنس کو مشکوک یا جعلی قرار دیا ہے، مگر فہرست میں شامل 39 پائلٹس اب پی آئی اے کا حصہ ہی نہیں جب کہ کئی پائلٹس کے نام، ایمپلائی نمبر، سی اے اے ریفرنس نمبر بھی غلط درج ہیں۔اس فہرست میں اے ٹی آر طیارہ حادثے میں انتقال کر جانے والے کیپٹن صالح جنجوعہ اور فرسٹ آفیسر منصور جنجوعہ کے نام بھی شامل ہیں۔ فہرست میں بعض ریٹائرڈ پائلٹس کے نام بھی شامل کئے گئے ہیں جب کہ حکومتی فہرست میں 4 پائلٹس ایسے بھی ہیں جن کے لائسنس ہائیکورٹ درست قرار دے چکی ہے۔ اس وقت ملک میں 10 سے زائد فلائنگ سکول کام کررہے ہیں، جس میں سے کراچی میں 3، لاہور میں 4 جبکہ ملتان، فیصل آباد اور پشاور میں ایک ایک فلائنگ سکول موجود ہیں۔ ان میں چند تو بہت پروفیشنل انداز میں آپریٹ ہورہے میں مگر بعض میں ریگولیٹری اور پیشہ ورانہ اخلاقیات کا کوئی خیال نہیں رکھا جارہا ہے، اور اس حوالے سے سول ایوی ایشن نے بھی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں‘ صورتحال یہ ہے کہ فیصل آباد میں کام کرنےوالے فلائنگ سکول کو لاہور کے ایک فلائنگ سکول کے لائسنس پر آپریٹ کیا جارہا ہے‘کراچی میں پی آئی اے ٹریننگ سینٹر میں ایک فلائنگ سکول کام کررہا ہے جسکوعرفِ عام میں پی آئی اے اکیڈمی کہا جاتا ہے ا کے سٹوڈنٹ پائلٹس کو جو بیج دیا جاتا ہے وہ بھی پی آئی اے کا ہوتا ہے‘ اس اکیڈمی میں داخلہ لینے والوں کو یہی تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ پی آئی اے میں تربیت حاصل کررہے ہیں اور سی پی ایل لائسنس ملنے کے بعد انہیں پی آئی اے میں بھرتی کرلیا جائےگا مگر دراصل اس اکیڈمی کا پی آئی اے سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں۔