ملکی معیشت کا پہیہ تاجروں سے رواں دواں ہے ¾ حکومتی پالیسیاں اگر تاجر دوست ہیں تو یہ معاشی استحکام کی ضمانت ہے ¾ پالیسیوں میں رتی بھر جھول بھی اس صنعت کو پھلنے پھولنے نہیں دے سکتا ¾ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے خود کو معاشی سطح پر مستحکم کیا اور آج یہ ممالک آدھی دنیا پر معاشی حکمرانی کر رہے ہیں ¾ چین کی مثال حیران کن ہے جس نے امریکہ جیسی سپر پاور کو معیشت میں ناکوں چنے چبوا دیئے ہیں ¾ دنیا کی سپر پاور ہونے کے باوجود امریکہ چین کا معاشی مقابلہ نہیں کر سکتا ¾ اسی طرح یورپی یونین کی فری ٹریڈ پالیسی بھی قابل تقلید ہے ¾ باہر کے ممالک نے خود کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کیلئے دیگرممالک سے ٹیکس فری ٹریڈ شروع کر رکھی ہے‘ ہر چند کہ گزشتہ چھ ماہ سے کورونا وباءنے کاروباری سرگرمیوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ¾ ترقی پذیر تو درکنا ترقی یافتہ ممالک بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں ¾ معیشت کو دوبارہ کیسے اپنے قدموں پر کھڑا کیا جائے حکومت کیلئے کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں ¾ اب جبکہ کورونا کے حملوں میں کمی واقع ہوئی ہے تاہم صنعت و تجارت اور معیشت سے متعلق انڈسٹری مکمل طور پر فعال نہیں ہو سکی ہے ¾ ترقی پذیر ممالک کیلئے اپنا استحکام مشکل تر ہوتا جا رہا ہے ایسے میں پاکستان جیسے ملک جہاں پہلے ہی سے بحران موجود ہیں ¾ یہاں آٹا ¾ چینی اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی کی اشیاءبےحد مہنگب ہیں تاہم اس وقت کاروبار زندگی معمول پر آ رہے ہیںاور سیاحت سمیت وہاں کی تمام انڈسٹری تقریباً کھل چکی ہے لیکن ہماری حکومتی قیادت میں فیصلہ سازی کا شدید فقدان ہے ¾ موسم گرما نصف تک پہنچ گیا ہے لیکن ملک کے سیاحتی مقامات کو تاحال کھولنے بارے کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا ¾ ہوٹل انڈسٹری بری طرح متاثر ہے ¾ موسم گرما کے تین یا چار ماہ ہی ملک کے سیاحتی مقامات کیلئے آمدن کا واحد ذریعہ ہوتے ہیں سردیوں میں ان پر فضا مقامات پر تقریباً ہو کا عالم ہوتا ہے ۔کورونا وباءنے جہاں سرمایہ کاروں کے اربوں روپے ڈوبو دیئے ہیں وہیں حکومت کی جانب سے فیصلہ سازی میں سرد مہری نے بھی انہیں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اگر ایس او پیز کے ساتھ بروقت سیاحتی مقامات کو کھول دیا جاتا ہے جہاں مقامی لوگوں کو معاشی استحکام ملتا وہیں ملک کی معیشت کو بھی سہارا مل سکتا ۔اب صورتحال یہ ہے کہ ملک کی تاجر برادری سراپا احتجاج ہے ¾ شدید گرمی میں سڑکوں پر آ چکی ہے۔
¾ گزشتہ ہفتے خیبر پختونخوا سمیت ملک بھر کی تاجر برادری نے ”ہارن بجاﺅ “”حکمران جگاﺅ “ احتجاج کا منفرد طریقہ اپنایا اور وزیراعظم ہاﺅس کے سامنے ہارن بجا کر اپنا چارٹرڈ آف ڈیمانڈ متعلقہ حکام کے سامنے پیش کیا ‘اس موقع پر ملک بھر کے تاجروں نے کاروبار کی بندش اور مطالبات کے حل کے لیے حکومت کو 31جولائی کی ڈیڈ لائن دی ہے۔اسلام آباد میں آل پاکستان انجمن تاجران کی جانب سے ہارن بجا ﺅحکمران جگاﺅ احتجاجی ریلی کا انعقاد ہوا۔تاجروں نے مطالبات کے حق میں زیر وپوائنٹ اسلام آباد سے وزیراعظم ہاﺅس تک مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا،دیگر شہروں سے آنے والے تاجر زیرو پوائنٹ پہنچے تو پولیس نے انہیں اسلام آباد میں داخل ہونے سے روک دیا، تاہم مذاکرات کے بعد مظاہرین کو پیدل جلوس کے بجائے سرینا چوک تک صرف گاڑیوں میں جانے کی اجازت دے دی گئی۔ریلی میں مظاہرین باجے اور گاڑی کے ہارن بجاکر احتجاج کرتے رہے، ان کا مطالبہ تھا کہ ملک بھر کے ریسٹورنٹس، سکولز، ہوٹلز اور شادی ہالز کو فوری طور پر کھولنے دیا جائے اور تمام کاروبار رات 10بجے تک کھولنے کی بھی اجازت دی جائے۔صدر آل پاکستان انجمن تاجران اجمل بلوچ نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا راستہ روکا گیا اور بلوچستان اور سندھ کے مظاہرین کو اسلام آباد داخل نہیں ہونے دیاگیا،اگر عمران خان پارلیمنٹ کے سامنے جا سکتے ہیں تو تاجروں کو کیوں روکا گیا؟ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہوٹل، سکول، پارلرز، شادی ہال سب کو کھولنے کی اجازت دی جائے ، لاک ڈاﺅن کی چھٹی ختم اور رات 10بجے تک دکانوں کو کھولنے کی اجازت دی جائے ۔ اجمل بلوچ کا کہنا تھا کہ بس میں 50 آدمی سفر کر سکتے ہیں تو شادی ہال میں 100 لوگ کیوں نہیں بیٹھ سکتے؟ تاجروں کو بلا سود قرضے دئیے جائیں تاکہ انہیں ریلیف ملے۔صدر آل پاکستان انجمن تاجران نے کہا کہ31جولائی تک ہمارے مطالبات نہ مانے گئے تو حکمران بھگا ﺅتحریک شروع کی جائے گی۔
تاجروں نے مطالبات کے حق میں زیر وپوائنٹ اسلام آباد سے وزیراعظم ہاﺅس تک مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے قبل600 سے زائد گاڑیوں پر مشتمل ریلی لاہور سے اسلام آباد پہنچ گئی ، جبکہ خیبر پختونخوا سے بھی تاجر اسلام آباد پہنچ گئے ، اسلام آباد انتظامیہ نے تاجروں کو زیرو پوائنٹ پر روک دیا تھا۔اسلام آباد انتظامیہ نے زیروپوائنٹ کے پاس کشمیر ہائی وے کو بند کردیا تھا اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی تھی۔ اسلام آباد انتظامیہ نے کنٹینر لگاکر تاجروں کو وزیراعظم ہاﺅس کی طرف مارچ کرنے سے روک دیا تھا۔ بکتربند گاڑیاں اور قیدی وینز کشمیر ہائی وے پر پہنچا دی گئی تھیںڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقت کے مطابق تاجروں کی اسلام آباد کی طرف آنے والی ریلیوں کو روکنے کے لئے فیض آباد اور کشمیر ہائی وے بند کر دی گئی تھی۔ آل پاکستان انجمن تاجران نعیم میر گروپ کے سربراہ نعیم میر نے کہا کہ حکومت نے بجٹ میں تاجروں کے لئے کچھ نہیں دیا ہے۔ مرکزی سیکرٹری جنرل نعیم میر نے کہا کہ گزشتہ روز آل پاکستان انجمن تاجران کے مرکزی و صوبائی قائدین کی ویڈیو کانفرنس ہوئی تھی جس میں حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا گیا تھا‘ہمارا مطالبہ ہے کہ تاجروں کوکاروبار کے اوقات کار بڑھانے اور ایس اوپیز کے تحت بند کاروبار کھولنے کی اجازت دی جائے۔ادھر آل پاکستان انجمن تاجران خیبر پختونخوا کے صدر ملک مہر الٰہی کی سربراہی میں دوپہر بارہ بجے قافلے پشاور موٹر وے انٹر چینج پر پہنچے اور یہاں سے اسلام آباد کیلئے روانہ ہوئے ¾ قبل ازیں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ملک مہر الٰہی کا کہنا تھا کہ کورونا وباءنے لوگوں کو اتنا متاثر نہیں کیا جتنا لاک ڈاﺅن کے باعث لوگ معاشی طور پر نقصانات سے دوچار ہوئے انہوں نے کہا کہ دنیا میں کاروبار بحال ہو چکے ہیں لیکن پاکستان واحد ملک ہے جہاں پر تاحال تاجر مسائل کی چکی میں پس رہے ہیں ¾ ہم پر بے تحاشا ٹیکس لاگو کر دیئے گئے ہیں ¾ صوبائی اور وفاقی ٹیکسوں کی تفصیلات اتنی طویل ہے کہ تاجر خود بھی حیران ہیں ¾ انہوں نے کہا کہ کورونا وباءکے پیش نظر حکومت کو تاجروں کیلئے بڑا ریلیف پیکج متعارف کرانا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا جس پر تاجر سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور اپنے مطالبات کی منظوری تک چین سے نہیں بیٹھیں گے ادھر آل پاکستان ہوٹلز ایسوسی ایشن نے بھی 23جولائی کو اسلام آباد مارچ کا اعلان کر رکھا ہے ¾ ایسوسی ایشن کے عہدیدارو ں خالد ایوب اور حبیب اللہ زاہد نے دیگر تاجر تنظیموں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ ادھر ٹریڈرز الائنس فیڈریشن نے بھی احتجاج کی حمایت اور اسلام آباد مارچ میں بھرپور شرکت کا اعلان کیا ہے ۔