کورونا وباءنے دنیا کو الٹ پلٹ کرکے رکھ دیا ہے ¾ کوئی چیز اپنی اصل حالت میں بحال نہیں ¾ اس وباءنے صحت عامہ کے مسائل تو پیدا کئے لیکن انسان اور زندگی سے جڑے دیگر تمام معمولات تہس نہس ہیں ‘پاکستان سمیت دنیا بڑی مشکل سے لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ دوبارہ کھڑا ہونے کی سعی میں ہے ¾ چھ ماہ کے طویل عرصے بعد بھی کورونا کے چوری چھپے وار جاری ہیں ¾ دنیا کے تمام ممالک اس وباءسے شدید متاثر ہوئے ہیں شاز ہی ایسے ملک ہونگے جو اس وباءسے بچ نکلنے میں کامیاب رہیں ہوں ‘کسی بھی ملک میں مقامی حکومتوں کو جمہوریت کی نرسری قرار دیا جاتا ہے ¾ اسی نظام حکومت سے ایسی شخصیات ابھری ہیں جنہوں نے آگے چل کر ملک اور قوم کیلئے کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں ¾ سیاست اور جمہوریت میں اپنا اور ملک کا نام روشن کیا ¾ بدقسمتی سے ملک کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو مقامی حکومتوں کے نظام کو ہمیشہ آمریت میں دوام ملا ¾ یہ نظام ڈکیٹرشپ میں پھلا پھولا ¾ بعدازاں جتنی بار بھی جمہوریت کا دور آیا ¾ بلدیاتی انتخابات کو سبوتاژ کیا جا تا رہا ہے ¾ ہرحکومت نے مقامی حکومتوں کے قیام میں روڑے اٹکائے اور انتخابات کی راہ میں آئینی و قانونی پیچیدگیوں کے پیچھے چھپتے رہی ¾ حال ہی میں خیبر پختونخوا حکومت نے کورونا وباءکے پیش نظر خیبر پختونخوا اسمبلی میں پینڈیمک کنٹرول اینڈایمرجنسی ریلیف بل 2020ءکوکثرت رائے سے منظورکیا ہے ‘بل کے تحت بلدیاتی الیکشن اگست 2019ءسے 2 سال کےلئے مﺅخرکردئیے گئے ہیں ‘بل میں اپوزیشن رکن عنایت اللہ کی ترمیم مستردکردی گئی۔گزشتہ روز صوبائی اسمبلی اجلاس کے دوران معاون خصوصی بلدیات کامران بنگش نے خیبرپختونخواپینڈیمک کنٹرول اینڈایمرجنسی ریلیف بل 2020ءپیش کیاگیا تو جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی عنایت اللہ نے ترمیم پیش کرتے ہوئے کہاکہ جب مدت پوری ہوتی ہے۔
توتین ماہ میں بلدیاتی الیکشن کرانالازمی ہے الیکشن کمیشن نے خط بھی لکھاہے کہ یہ ترمیم الیکشن قانون کے مطابق نہیں بلدیاتی نظام آئین کا حصہ ہے ‘حکومت الیکشن کو ڈیفرکرنے کاحق نہیں رکھتی ‘اے این پی کے پارلیمانی لیڈر سرداربابک نے کہاکہ جب18اگست 2019ءمیں ٹائم پوراہورہاتھا تو اس سے تین ماہ قبل لائحہ عمل طے کرلیاجاتاانتخابات کاکام الیکشن کمیشن کاہے حکومت نہیں چاہتی کہ بلدیاتی انتخابات ہو،ترامیم اورقانون سازی پارٹی کےلئے نہیں صوبے کےلئے ہواکرتی ہے جب بھی کوئی قانون سازی ایوان میں ہو اس کےلئے اجتماعی ذمہ داری ضروری ہوتی ہے پھرکیوں سولوفلائٹ کے ذریعے بل پاس کئے جاتے ہیں‘پی پی کے احمدکنڈی نے کہاکہ رولز111کہتاہے کہ بل کی کاپی ممبرکودیناپڑے گی تاکہ اس پرسیرحاصل بحث ہوسکے ۔جے یوآئی کی رکن نعیمہ کشورنے کہاکہ 2017ءالیکشن ایکٹ بناتے وقت میں کمیٹی کی رکن تھی ‘پی ٹی آئی کابھی اہم کردارتھا جس میں صاف لکھاگیاہے کہ مدت پوری ہونے پر تین ماہ کے اندربلدیاتی الیکشن ہوگا ‘اس موقع پر معاون خصوصی بلدیات واطلاعات کامران بنگش نے کہاکہ ہم آج سے دوسال کی مدت نہیں بلکہ اگست2019ءسے دوسال کاوقت مانگ رہے ہیں ‘وباءکی صورتحال میں اگرالیکشن کرتے ہیں توا س سے اموات ہوسکتی ہیں ہم الیکشن کمیشن کےساتھ رابطے میں ہیں ہم انہیں جوابدہ ہیں اس ترمیم میں کسی قسم کی بدنیتی نہیں ہے ‘صوبے خودمختارہیں الیکشن کمیشن پاکستان کےساتھ اس معاملے کو ٹیک اپ کررہے ہیں‘ بعدازاں ڈپٹی سپیکر نے عنایت اللہ کی ترمیم پررائے شماری کی ‘حکومتی اراکین کی تعدادزیادہ ہونے پر ترمیم مستردکردی گئی اوربل کو کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا ۔
یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی سابق صوبائی حکومت اپنے پانچ سالہ آئینی ٹینور کے اختتام تک اپنے متعارف کردہ بلدیاتی نظام کو منفرد قرار دیتی رہی ¾ اس نظام کا چرچا نہ صرف ملک بھر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی کیا گیا اور بین الاقوامی تنظیموں اور ڈونرایجنسیوں کی جانب سے اعلانات کروائے گئے کہ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی نظام کا کوئی نعم البدل نہیں ہے لیکن جونہی خیبر پختونخوا ¾ پنجاب اور مرکز میں تحریک انصاف برسر اقتدار آئی تو خیبر پختونخوا کے منفرد اور بین لاقوامی تنظیموں کے تصدیق شدہ بلدیاتی نظام میں خامیاں نظر آنے لگیں اور پھر اس نظام کو رول بیک کرکے نئے نظام کی تیاریوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ۔ اس کے بعد خیبر پختونخوا کابینہ نے لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل 2019 ءکی منظوری دی ‘ کابینہ اجلاس کے بعد اس وقت کے صوبائی وزیر بلدیات، الیکشنز و دیہی ترقی اور وزیر اطلاعات نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے نئے بلدیاتی نظام کی چیدہ چیدہ خصوصےات میڈیا کے سامنے پیش کیں۔جس کے مطابق نئے بلدیاتی نظام میں ضلع کونسل اور ضلع ناظم کا عہدہ ختم کرنے کی تجوےز ہے ‘ نیا مقامی حکومتوں کا نظام دےہی اور شہری علاقوں مےں باا لترتےب تحصیل اورسٹی لوکل گورنمنٹ اور ویلج و نیبرہوڈ کونسل پر مشتمل دو درجاتی نظام ہوگا‘ نئے ترمیمی بل کے تحت ناظمین اب چیئرمین کہلائیں گے تمام ڈویژنل ہیڈکوارٹرز میں سٹی لوکل گورنمنٹ بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کا سربراہ میئر کہلائے گا‘تحصیل کونسل چیئرمین اور میئر سٹی لوکل گورنمنٹ کے انتخابات جماعتی ¾ ویلج اور نیبر ہوڈ کونسل کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوں گے‘ اسی طرح تحصیل چیئرمین اور میئر سٹی لوکل گورنمنٹ براہ راست انتخابات کے ذریعے منتخب ہوں گے۔ ویلج و نیبر ہوڈ کونسلز میں 33 فیصد خواتین ¾ 5 فیصد نوجوانوں اور اقلیت کا بھی کوٹہ بحال رکھا گیا ہے ¾ ویلج اور نیبرہڈ کونسل ممبران کی تعداد 6 سے 7 کر دی گئی ہے جو اس سے قبل 10 سے 15 تھی‘ محکموں کی نچلی سطح پر منتقلی کے حوالے سے کہا کہ پرائمری و سیکنڈری ایجوکیشن ¾ سماجی بہبود ¾ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ¾ سپورٹس ¾ کلچر ¾ امور نوجوانان ¾ لائیو سٹاک ¾ سوشل ویلفیئر ¾ پاپولیشن ¾ واٹر اینڈ سینی ٹیشن اور دیہی ترقی کے محکمے تحصیل چیئرمین میئر سٹی لوکل گورنمنٹ کے ماتحت ہوں گے۔ نئے بلدیاتی ترمیمی بل کے تحت لوکل گورنمنٹ فنانس کمیشن قائم کیا جائے گا جس میں تحصیل چیئرمینوں کی تعداد 2 سے بڑھا کر 5 کر دی گئی ہے جن کا انتخاب صوبے کے متعلقہ پانچ زونز سے ہوگا‘ بدعنوانی کے تدارک کے لئے نئے بلدیاتی نظام کے مالیاتی حسابات کمپیوٹرائزڈ ہوں گے۔ اسی طرح ڈسٹرکٹ اکا¶نٹس آفیسرز کے علاوہ صوبائی حکومت خود اور تھرڈ پارٹی کے ذریعے مقامی حکومتوں کا آڈٹ کر سکے گی۔ سابق صوبائی وزیر بلدیات شہرام ترکئی کا کہنا تھا کہ تحصیل کونسل سادہ اکثریت سے بجٹ کی منظوری دے سکے گی ¾ بلدیاتی حکومتوں کو صوبائی ترقیاتی بجٹ کا 30 فیصد فراہم کیا جائے گا۔تحصیل کونسل چیئرمین اور میئر سٹی لوکل گورنمنٹ کو مواخذے کی تحریک پر ایوان کی دو تہائی اکثریت سے ہٹایا جا سکے گا تاہم مواخذے کےلئے لوکل گورنمنٹ کمیشن کو معقول وجوہات فراہم کرنا ہوں گی
پشاور 2 سٹی لوکل گورنمنٹس اور 3 تحصیل حکومتوں پر مشتمل ہوگا‘ ادھر کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزےر اعلیٰ محمود خان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کا نیا مجوزہ بلدےاتی نظام بہترین ہے ¾ پورے صوبے بشمول ضم شدہ اضلاع مےں ےکساں بلدےاتی نظام نافذ کےا جا رہا ہے جس سے صوبے مےں بلدےاتی حکومتےں مزےد مستحکم ہو ںگی،اختےارات حقےقی معنوں مےں عوام کو منتقل ہو ں گے اور اس طرح عوام بااختےاربھی ہو ں گے۔خیبر پختونخوا کے سابق بلدیاتی نظام کے انفرادیت کی بنیادی اکائی کو43ہزار منتخب بلدیاتی نمائندوں کی فوج ظفر موج کہنا غلط نہیں ہوگا ‘یونین کونسل کے ڈسٹرکٹ اور ٹاﺅن ممبرز کا طریقہ انتخاب جنرل (ر) مشرف کے متعارف کردہ بلدیاتی نظام کا حصہ تھا‘صوبائی حکومت نے اسی نظام کو اپنے منفرد سسٹم کا حصہ بنایا تاہم یونین کونسل کے اندر آبادی کے تناسب پر ویلج کونسل اور نیبرڈ ہوڈ کونسل دوسرے صوبوں کی نسبت انفرادیت رکھتی تھی ۔صوبے کے 44ہزار نمائندوں کے انتخاب کیلئے لاکھوں افراد نے بڑے جوش و جذبے سے قسمت آزمائی کی ۔ بعدازاں منتخب نمائندوں نے بھی چند ماہ تک فعالیت دکھائی تاہم جب تنخواہوں اور مراعات کی عدم دستیابی کی شنید سنائی گئی تو ویلج کونسلیں اور نیبرڈ ہوڈ کونسلیں غیر فعالیت کا شکار ہو گئیں ۔ اپنے نام کے ساتھ ناظم اور کونسلر کا لاحقہ لگانے والے اپنے پرانے کاموں پر لگ گئے اور خدمت کا وہ جذبہ جو انتخابات کے موقع پر دکھائی دے رہا تھا مفقود ہو گیا ۔تاہم بعدازاں ضلع اور نائب ناظمین کیلئے ماہوار تنخواہیں مقرر کرنے کا اعلامیہ جاری کیا گیا ۔جس کے تحت ضلع ناظم اورنائب ناظمین گریڈ 19اور 18کے افسروں کے مساوی اختیارات استعمال کر سکیں گے ۔دفتری اخراجات کیلئے 10¾10ہزار الگ سے دیئے گئے ۔اسی طرح ٹاﺅن اور تحصیل ناظمین کیلئے گریڈ 17کے برابر اختیارات اور تنخواہیں 30ہزار مقرر کی گئی ۔ویلج کونسل اور نیبرڈ ہوڈ کونسل کے ناظمین کی تنخواہیں 10ہزار روپے اور اختیارات سکیل 14کے برابر کئے گئے تھے۔ صوبائی حکومت نے منتخب بلدیاتی نمائندوں کے مسلسل مطالبات اور احتجاج کے بعد انہیں مالی اور انتظامی اختیارات تو دیدیئے تھے لیکن ان بلدیاتی منتخب نمائندوں کی تربیت کیلئے کوئی سامان نہیں کیا تھا ۔ سونے پر سہاگہ والی بات تو یہ تھی کہ ان منتخب نمائندوں کو کوئی سرکاری اہلکار سلام نہ کرے تو یہ اپنی توہین سمجھتے تھے اور کونسل اجلاس میں شور شرابہ کرتے کہ ان کا استحقاق مجروح ہوا ہے ۔