زیادہ دور کی بات نہیں صرف دو دہائی پیچھے چلے جائیں حکومتوں کے سالانہ بجٹ میں دال چینی اور گھی سمیت اشیاے خورد و نوش کی قیمتوں کا تعین کیا جاتا اور پھر سال بھر یہ اشیاءبجٹ میں متعین کردہ نرخوں کے مطابق ہی فروخت ہوتیں ¾ عوام سال بھر بجٹ کا انتظار کرتے تاکہ انہیں نئے مالی سال میں سستی یا مہنگی اشیاء بارے آگاہی حاصل ہو ¾ یعنی اس وقت کی حکومتوں کی مارکیٹ پر اس حد تک گرفت ہوتی کہ سال بھر اشیائے خورد و نوش کے نرخوں میں اتار چڑھاﺅ نہ کر سکتا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ جون کے بجٹ کے بعد منی بجٹ آنے لگے یعنی منی بجٹ کے ذریعے قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ¾ منی بجٹ کے بعد ماہانہ سطح پر مارکیٹ میں قیمتیں بڑھنے لگیں پھر مہینوں سے بات ہفتوں تک پہنچی پھر ہفتوں سے دنوں ¾ اب چونکہ ملک میں تبدیلی آ چکی ہے اسی لئے ہر روز کی بجائے اب گھنٹوں کے حساب سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے‘ موجودہ حکومت کی مارکیٹ پر گرفت اس حد تک ڈھیلی ہے کہ ہر تین گھنٹے بعد اشیائے خورد ونوش کی قیمتیں بڑھتی ہیں ایساکبھی نہیں ہوا کہ ان میں کمی بھی واقع ہوئی ہو ۔جون کا بجٹ چونکہ اب گئے وقتوں کی بات ہوگئی ہے اور عام عوام کے نزدیک اس بجٹ کی کوئی وقعت اور اہمیت باقی نہیں رہی ہے ¾ جون کا بجٹ تو صرف سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے تک محدود ہوگیا ہے اور یہی ایک طبقہ جون کے بجٹ کا بے چینی سے انتظار کرتا ہے ۔ لیکن اس مرتبہ تبدیلی سرکار نے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کرکے نئی تاریخ بھی رقم کر دی ہے جس ملک میں گھنٹوں کے حساب سے مہنگائی ہوتی ہو وہاں بھلا سالانہ بجٹ کیا حیثیت رکھتا ہے ‘بدقسمتی سے خیبر پختونخوا زرعی صوبہ نہیں ہے ¾ ہمیں دودھ سے لیکر گوشت اور آٹا ¾ چینی ¾ مرغی اور دالوں سے لیکر گھی حتیٰ کہ دیگر اشیائے خورد ونوش کیلئے پنجاب سمیت دیگر صوبوں کا محتاج ہونا پڑتا ہے‘بدقسمتی سے صوبے میں تھوڑی بہت زرعی اراضی تھی وہاں بھی رہائشی کالونیاں بن گئی ہیں اور حکام بالا کی آشیر باد سے مزید زرعی علاقوں میں کنکریٹ کے پہاڑ کھڑے کئے جا رہے ہیں۔
‘یقیناً ہماری صوبائی حکومتیں ذمہ دار ہیں کہ انہوں نے مجرمانہ غفلت کی اور اسی پر عمل پیرا ہیں ہم صوبے کے عوام کی ضروریات پوری کرنے کیلئے ہمیشہ پنجاب پرہی نظر رکھتے ہیں ۔ خیبر پختونخوا میں آٹا بحران نیا نہیں ہے بلکہ یہ بحران ہمیشہ سر اٹھاتا رہتا ہے لیکن کبھی اس صوبے کے بڑوں نے یہ سوچنا گوارا نہیں کیا کہ ہم کب اجناس میں خود کفیل ہونگے ؟ اگر خود کفیل نہیں بن سکتے تو کوشش تو کی جا سکتی ہے ۔ 90کی دہائی میں جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دوران پنجاب نے صوبے پر آٹا بند کیا تھا تو سیاستدانوں نے ”آٹا چور “ کا نعرہ لگایا تھا ¾ موجودہ زمانے کے سیاستدان تو یہ نعرہ بھی نہیں لگا سکتے ۔ یعنی عوام کیلئے آواز اٹھانے والا کوئی نہیں ہے ۔پنجاب میں جب بھی گندم کی طلب و رسد میں کمی واقع ہوتی ہے تو وہ اپنے عوام اور صوبے کی ضرویات پوری کرنے کی غرض سے خیبر پختونخوا سمیت دیگر صوبوں کو گندم ¾ آٹا اور اس سے بنی تمام مصنوعات پر پابندی عائد کر دیتا ہے ۔ پنجاب حکومت نے ہمیشہ کی طرح ایک مرتبہ پھر خیبر پختونخوا کیلئے گندم ¾ آٹا اور اس سے بنی تمام مصنوعات پر پابندی عائد کر دی ¾ پنجاب حکومت نے نہ صرف جی ٹی روڈ بلکہ موٹروے پر بھی اپنی چیک پوسٹیں بنا دی ہیں‘سوال یہ اٹھتا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت صوبے کی فلور ملوں کو 4ہزار ٹن گندم روزانہ فراہم کر رہی ہے ¾ اس گندم سے بنا آٹا اور دیگر مصنوعات کہاں جاتی ہیں ¾ کیا اداروں کی ملی بھگت سے مقامی فلور ملوں کا تمام آٹا اور دیگر اجناس افغانستان سمگل کی جاتی ہےں ؟ خیبر پختونخوا کی فلور ملوں کے آٹے میں ایسا کیا ہے کہ یہاں کے عوام اس آٹے کو اہمیت نہیں دیتے اور پنجاب کے آٹے کو فوقیت دیتے ہیں‘ حالانکہ یہاں کی فلو رملیں بھی گندم سے آٹا اور فائن بناتی ہیں ۔ گزشتہ دنوں جب ”روزنامہ آج “ نے یہ انکشاف کیا کہ مقامی فلور ملیں 20 کلو کے آٹے کا تھیلہ سرکاری نرخ 780کی بجائے مارکیٹ میں پنجاب کے برابر نرخوں میں فروخت کر رہی ہیں اور متعلقہ اداروں کی ملی بھگت سے فلور ملز مالکان کروڑ پتی بن گئے ہیں تو صوبائی حکومت اور متعلقہ ادارے کو ہوش آیا اور انہوںنے فلور ملوں کے خلاف کاروائیاں شروع کیں بعض فلو ر ملوں کے لائسنس منسوخ کئے اور کئی کو سرکاری گندم کی فراہمی معطل کر دی ۔صوبائی حکومت محکمہ خوراک کی وساطت سے مقامی فلور ملوں کو سبسڈائزڈ نرخوں پر سرکاری گندم فراہم کرتی ہے اور یہ تمام تقسیم کوٹے کے تحت ہوتی ہے اسی لئے محکمہ خوراک نے ایک فارمولے کے تحت تمام تر اخراجات نکال کر فلور ملوں کو مارکیٹ میں 20کلو کا تھیلہ 780روپے میں فروخت کرنے کا پابند بنا رکھا ہے تاہم یہ پابندی صرف کاغذوں تک محدود تھی ۔جب روزنامہ آج نے مذکورہ ایشو اٹھایا تو صوبائی حکومت نے جہاں فلور ملوں کو 780سے 800 روپے میں مارکیٹ کو آٹا فراہم کرنے کا پابند بنایا وہیں مارکیٹ پر ڈھیلی گرفت کے باعث خود ہی سرکاری نرخوں پر آٹا کی فروخت شروع کر دی ۔محکمہ خوراک اب پشاور کے مختلف مقامات پر ٹرکوں پر آٹے کے تھیلے لاد کر 860روپے میں 20کلو کا تھیلہ عوام کو فراہم کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود صوبے کے غریب عوام کو لمبی لمبی قطاروں میں کھڑا کرکے قدرے ہزیمت جھیلنے کے بعد آٹا دستیاب ہوتا ہے ‘متعلقہ اداروں کا مارکیٹ پر کنٹرول کیوں نہیں ہے‘ یہ بھی سوالیہ نشان ہے ۔ ڈیلرز کا کہنا ہے کہ پشاور کی اوپن مارکیٹ میں 95فیصد تک پنجاب سے آٹا آتا ہے کیونکہ یہاں کے عوام پنجاب کا آٹا پسند کرتے ہیںاور مقامی فلور ملوں کا آٹا نہیں خریدتے ۔اب چونکہ مرکز کے علاوہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بھی ایک ہی جماعت کی حکومتیں ہیں تو پھر ایک صوبہ دوسرے صوبے پر آٹا کیسے بند کر سکتا ہے ¾ یہی وہ سوال ہے جو ایک عام شخص بھی تحریک انصاف کی حکومت سے کرتا ہے‘پنجاب اور خیبر پختونخوا میں مخالف جماعتوں کی حکومتیں نہیں ہیں کہ ایک دوسرے کو سیاسی طورپر نقصان پہنچائیں تاہم پنجاب حکومت نے اس بار زیادہ سختی کر رکھی ہے اور پنجاب کے داخلی و خارجی راستوں کے ساتھ موٹر وے کے تمام انٹر چینچز کے قریب بھی اپنی چیک پوسٹیں قائم کر د ی ہیں جہاں پر محکمہ خوراک پنجاب کے اہلکار ایک بوری آٹا بھی خیبر پختونخوا جانے نہیں دیتے ۔مارکیٹ پر کنٹرول نہ ہونے کے باعث ذخیرہ اندوزی بھی عروج پر ہے ¾ ڈیلرز جس نرخ پر مال اٹھاتے ہیں اس کی قیمتیں بڑھنے کا انتظار کرتے ہیں اور بجائے پرانے یا جس نرخوں پر انہوں نے مال اٹھایا ہوتا ہے۔
اس قیمت پر فروخت کی بجائے نئے یعنی اضافی نرخوں پر اشیاءفر وخت کرتے ہیں ۔ لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ گھی سمیت بعض خوراک کے آئٹمز پر قیمتیں درج ہوتی ہیں لیکن ڈیلر انہیں درج شدہ قیمتوں پر فر وخت نہیں کرتے بلکہ ہر گھنٹے بعد بڑھنے والی قیمت کے مطابق وہ آئٹمز بیچتے ہیں ¾ اگر متعلقہ اداروں کا مارکیٹ پرکنٹرول ہوتا تو ڈیلر کس طرح سستی اشیاءکو مہنگے داموں فروخت کر سکتاتھا ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ مہنگائی کا نا تھمنے والا طوفان برپا ہے ¾ لیکن ڈیلرز اس طوفان کا فائدہ اٹھاتے ہیں انہوں نےث عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا بھی شروع کر دیا ہے جس کے باعث مہنگائی کے براہ راست اثرات ایک عام شخص پر مرتب ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان متعدد مرتبہ مہنگائی کانوٹس لے چکے ہیں لیکن یہ کٹہ اب کھل چکا ہے جسے باندھنا شاہد اب حکومت کے ہاتھ میں بھی نہیں رہا ۔خیبر پختونخوا میں آٹا بحران کا خدشہ کئی ماہ قبل ہی ظاہر کیا جا رہا تھا لیکن متعلقہ ادارے ہمیشہ کی طرح چین کی بانسری بجا رہے تھے اور جب پانی سر تک آ پہنچا تو پھر عوام کو ذلیل و خوار کر کے سرکاری نرخوں پر آٹا دیا جا رہا ہے ۔خیبرپختونخوا حکومت نے صوبے میں آٹے کی قیمتوں پر قابو پانے اور عوام کو رعایتی نرخ پر آٹا فراہم کرنے کے لئے طریقہ کار وضح کیاہے اس سلسلے میں صوبائی وزیرخوراک قلندر خان لودھی کی ہدایت کی روشنی میں محکمہ کی جانب سے تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز، اسسٹنٹ ڈائریکٹرز فوڈ سمیت دیگر متعلقہ حکام کو پالیسی گائیڈ لائنز جاری کر دی گئی ہیں، جن کے مطابق عوام کو 20 کلو گرام آٹے کا تھیلا حکومت کے تعین کردہ ریٹ 860 روپے پر فراہم کیاجائے گا جبکہ تمام فلور ملز مالکان ضلعی انتظامیہ کی جانب سے منظور شدہ آٹا ڈیلرز کو فی تھیلا 837 روپے میں فراہم کریں گے۔اس کے علاوہ فلور ملوں کو سرکاری گندم سے 12 فیصد چوکر نکالنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔ تمام اضلاع کے ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولرز / راشن کنٹرولرز ہر تحصیل سے لائسنس ہولڈر آٹا ڈیلرز کی لسٹ ڈپٹی کمشنر کو منظوری کے لئے فراہم کرے گا تا کہ حقیقی اور قابل اعتبار آٹا ڈیلرز کو آٹا دیا جائے۔دو سری جانب صوبے میں تمام فعال فلور ملوں کو روزانہ کی بنیاد 4000 میٹرک ٹن گندم رعایتی ریٹ پر دی جا تی ہے تاہم تمام فلور ملوں کو گندم کوٹہ کے حساب سے رعایتی نرخوں پر آٹا فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے‘ علاوہ ازیں سرکاری گندم سے نکالے گئے آٹے کے معیار کو جانچنے کے لئے محکمہ خوراک کے حکام کو ہفتے میں کم از کم ایک مرتبہ آٹے کے نمونے حاصل کرنے کی تلقین کی گئی ہے تا کہ مارکیٹ میں معیاری آٹے کی دستیابی کو یقینی بنایا جا سکے۔ عوام کی آسانی کے لئے صوبے کے تمام اضلاع میں متعلقہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے تمام منظور شدہ آٹا ڈیلرز کو دکانوں پر پینا فلیکس (جن پر سرکاری آٹا کی قیمت و دیگر ضروری معلومات درج ہوں) آویزاں کرنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔ عوامی آگاہی کے لئے منظور شدہ آٹا ڈیلرز کے نام، پتہ اور ان کے لئے مختص فلور ملز کے متعلق تمام ضروری معلومات میڈیا کے ذریعے فراہم کی جائےں گی جس کی بدولت عوام کے لئے حکومت کے تعین کردہ نرخوں پر آٹے کی خریداری آسان بنائی جائے گی۔ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے منظور کردہ آٹا ڈیلرز کی دکانوں میں آٹے کی عدم دستیابی کی صورت میں شہری متعلقہ ڈپٹی کمشنر ، ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر کے علاوہ دیگر متعلقہ فورمز پر شکایت ریکارڈ کرا سکیں گے۔ واضح رہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے عوام کو آٹا کم قیمت پر فراہم کرنے کے پیش نظر فلور ملوں کا یومیہ گندم کوٹہ گزشتہ چند ماہ کے دوران 2000 سے بڑھا کر 4000 میٹرک ٹن کر دیا ہے۔لیکن اس کے باوجود صوبہ اپنے عوام کی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکام مسئلے کی جڑ تک پہنچےںاور کم از کم آٹا ¾ چینی اور دالوں کی دستیابی کو تو عوام کیلئے آسان بنائیں تاکہ عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔