سیاسی ہلچل

اس حقیقت کے باوجود کہ2002 کے بعدآ نے والی ہر قومی اسمبلی نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہے لیکن اسی کے ساتھ یہ تلخ حقیقت بھی روشن ہے کہ کوئی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکا2000 کی قومی اسمبلی سے جنرل پرویز مشرف نے پیپلز پارٹی کو توڑ کر اور مانگے تانگے کے ووٹ لیکرق لیگ کے میر ظفر اللہ جمالی کو وزیراعظم بنایا جو سرعام کسی لاگ لپٹ کے بغیر جنرل پرویز مشرف کو باس کہتے تھے لیکن پھر بھی ڈیڑھ سال بعد ان سے استعفیٰ لے لیاگیا اور مستقبل کے وزیراعظم شوکت عزیز کو قومی اسمبلی کاممبر منتخب ہونے تک چوہدری شجاعت حسین کو وزیراعظم بنایا گیا دلچسپ بات یہ ہے کہ چوہدری شجاعت حسین کوئی نگران وزیراعظم نہیں تھے بلکہ منتخب تھے لیکن انہوں نے شوکت عزیز کیلئے استعفیٰ دے دیا2008 ءکی قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے مخدوم یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنائے گئے وہ تمام تر کمزوریوں اور سازشوں کے اپنا عرصہ پورے کر رہے تھے کہ سپریم کورٹ نے صدر آصف زرداری کے خلاف سوئس عدالت میں مقدمہ شروع کرنے کیلئے خط لکھنے کا حکم دیا جو وزیراعظم نے عدالت عظمیٰ کی ہدایت کے خلاف لکھا اور اس توہین عدالت پر وہ نااہل قرار پائے ان کی جگہ راجہ پرویز اشرف وزیراعظم بن گئے2013 میں مسلم لیگ ن اکثریت لیکر آئی اور میاں نوازشریف تیسری بار وزیراعظم بنے انکے خلاف شروع دن سے ہی تحریک انصاف کے عمران خان نے تحریک شروع کردی اسی دوران2014 میں126 دن کا تاریخی دھرنا دیاگیا لیکن نوازشریف کی حکومت قائم رہی2016 میں پانامہ لیکس میں کئی عالمی شخصیات کے مالی سکینڈل بے نقاب ہوئے ۔

ان ہی میں نوازشریف اورانکے بچوں کی آف شور کمپنیوں اور لندن میں جائیداد نکل آئی اس پر تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے سپریم کورٹ میں انکے خلاف درخواست دے دی سپریم کورٹ نے پہلے پارلیمنٹ کو انکوائری کا کہا پھر جے آئی ٹی بنی اور کئی نشیب و فراز کے بعد سپریم کورٹ نے نوازشریف کو سیاست اور کوئی عہدہ سنبھالنے کیلئے نااہل قرار دے دیا انکے بعد شاہد خاقان عباسی وزیراعظم بنائے گئے 2018 میں تحریک انصاف اکثریتی پارٹی بن کر آئی اور اتحادی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی لیکن ابھی دو سال پورے نہیں ہوئے اور حکومت کے جانے کی باتیں شروع ہوگئی ہےں مگر اس بار بھی قومی اسمبلی ختم کرنے کی نہیں بلکہ وزیراعظم عمران خان کی جگہ تحریک انصاف کے کسی دوسرے رہنما کو سامنے لانے کا مطالبہ آیا ہے اسکو مائنس ون کہا جارہا ہے اگرچہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں شخصیات کے گرد ہی گھومتی ہیں پیپلزپارٹی پر بھٹو خاندان کی اجارہ داری ہے اور اب زرداری نوجوان کو بھی پیپلز پارٹی کو چلانے کیلئے بھٹو بننا پڑا ہے حالانکہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی کی مرکزی رہنماﺅں نے پیپلز پارٹی کا نام اپنانے کی کوشش کی ان میں غلام مصطفی جتوئی‘ مولانا کوثر نیازی اور ماضی قریب میں آفتاب شیرپاﺅ شامل ہیں لیکن پیپلز پارٹی کا سیاسی اثاثہ نہیں چھین سکے مسلم لیگ ن پر نوازشریف کا تسلط توڑنے اور ان کو مائنس کرکے شہبازشریف کو آگے لانے کی کوششیں کی گئی مگر کامیابی نہیں ملی حتیٰ کہ نوازشریف کی نااہلی کے بعد بھی شہباز شریف کا پارٹی پر پورا کنٹرول نہیں ہو سکا اور اب بھی حتمی فیصلہ نوازشریف کا ہی چلتا ہے۔

 اس سیاسی روایت میں تحریک انصاف سے عمران خان کو مائنس کرنا سیاسی طورپر ناممکن ہے یہ بات ارکان پارلیمنٹ بھی سمجھتے ہیں کہ ان کو ووٹ عمران خان کے نام پر ہی ملے ہیں اور فی الحال کوئی دوسرا رہنما ایسا نظر نہیں آتا جو تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کیلئے قابل قبول ہو‘ جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے تو سیاسی طور پر یا اسمبلی کے اندر وہ عمران خان کے لئے خطرہ بننے کی پوزیشن میں نہیں اگرچہ بلاول بھٹو نے سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی بات کی ہے لیکن سینٹ کے چیئرمین کے خلاف تحریک ناکام ہونے کے بعد اب اپوزیشن کو اپنے ارکان پارلیمنٹ پر بھی اعتماد نہیں اور شہبازشریف تو اس قسم کی مہم جوئی کاحصہ بننے کو بھی تیار نہیں ہونگے یہ باتیں محض عوام کو ذہنی طور پرمصروف رکھنے کی کوشش ہے جومشکل معاشی حالات اور مہنگائی کے باعث تنگ ہیں لیکن اسکے باوجود ابھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت کرپشن کے مقدمات میں پھنسی ہوئی ہے تحریک انصاف کی مقبولیت کم ہونے کے باوجود اسمبلی مدت پورے کرے گی اور وزیراعظم بھی تبدیل نہیں ہوگا۔