گزشتہ مہینے سی ایس ایس کے امتحانات میں اگر مجموعی طور پر تین فیصد امیدواروں کے کامیاب ہونے جیسا مایوس کن نتیجہ آیا، لیکن ساتھ ہی ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والی ایک امیدوار نے ایسا ریکارڈ بنا دیا، جو نہ صرف خاندان بھر کے لئے بلکہ صوبے کی سطح پر بھی قابل تقلید مثال بن گئی ہے۔ وہ اپنے خاندان کی پانچویں بہن تھی، جو سی ایس ایس کے امتحان میں کامیاب ہوئی، اس سے پہلے چار بہنیں یہ اہم مقابلے کا امتحان پاس کر کے ملک کی خدمت کر رہی ہیں۔یہ بہت خوشکن امر ہے کہ ا ب ہمارے معاشرے میں بھی خواتین کی کسی میدان میں کامیابی کو زیادہ فخر کے ساتھ محسوس کیا جاتا ہے، پاکستانی خواتین ہر شعبہ زندگی میں کسی سے کم نہیں اور وزارت عظمیٰ سے لے کر وفاقی سیکرٹری تک حکومتی ذمہ داریوں اور کاروبار سے لے کر عسکری میدان تک کارنامے سر انجام دے چکی ہیں۔ حال ہی میں خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی ایک قابل فخر بیٹی نے عسکری کمان کے حوالے سے ایسا اعزاز حاصل کیا ہے، جو اس سے پہلے کسی خاتون کو حاصل نہیں ہوا تھا۔ یہ لیفٹیننٹ جنرل ڈاکٹر نگار جوہر ہیں، جو ملکی تاریخ کی پہلی تھری سٹار جنرل بنائی گئی ہیں۔ اور ساتھ ہی سرجن جنرل کی حیثیت سے 40 ہزار افسروں اور جوانوں پر مشتمل میڈیکل کور کی کمانڈر بن گئی ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر کا خاندان دینی، ملی، قومی اور عسکری خدمات کی اپنی شناخت اور تاریخ رکھتا ہے، جو ان کے نانا، شیخ القرآن مولانا محمد طاہرکی دینی خدمات سے شروع ہوتا ہے۔ڈاکٹر نگار جوہر نے زندگی میں ناقابل فراموش دکھ بھی دیکھے ہیں۔ایسے دکھ جو زندگی میں مایوسی بھر دیتے ہیں، لیکن انہوں نے ان سے مایوس ہونے کی بجائے طاقت حاصل کی اور نئے عزم اور جذبے سے منزل کی طرف پیش قدمی جاری رکھی۔ ڈاکٹر نگار کے والد کرنل عبدالقادر بھی میجر عامر کہ کزن تھے اور 1980 کی دہائی میں آئی ایس آئی میں افغانستان ونگ کے ڈائریکٹر تھے۔
کرنل عبدالقادر 33 سال قبل ایک حادثے میں اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ جاں بحق ہوگئے۔ جس وقت یہ قابل فخر خاندان حادثے کا شکار ہوا، معصوم نگار زیر تعلیم تھی۔ کسی ٹین ایجر لڑکی کے لئے اس سے بڑا دکھ نہیں ہو سکتا کہ والدین اور دو بھائیوں کو المناک حادثے میں گنوا دے، لیکن اس پہاڑجیسے دکھ سے بھی معصوم نگار نے ایک نیا جذبہ حاصل کیا اور حصول تعلیم پر توجہ مرکوز کر لی‘ اپنے ماموں میجر عامر کی شفقت اور تربیت نے ہر موڑ پر حوصلہ اور سہارا دیا اور آرمی میڈیکل کالج سے گریجویشن کے بعد پاک فوج کا حصہ بن گئی، لیکن ایک طرف ان کی کامیابیوں کا سفر جاری تھا تو دوسری طرف ایک جذباتی امتحان ابھی باقی تھا۔ جو ابھی تقریبا چھ ماہ قبل ان کے شوہر جوہر خان کی اچانک وفات کی صورت میں پیش آیا۔ کسی خاتون کے لئے والدین کے بعد خاوند کا رشتہ ہی ایسا ہوتا ہے‘ جس سے دلی اور جذباتی تعلق ہوتا ہے۔اس لحاظ سے دوسرا بڑا صدمہ تھا جو کہ کسی خاتون کو پیش آسکتا ہے۔ لیکن انہوں نے اس کو بھی صبر کے ساتھ برداشت کیا اور شاید قدرت ڈاکٹر نگار کی تالیف قلب کا فیصلہ کرچکی تھی اور جلد ہی عسکری قیادت نے ان کی پیشہ ورانہ کارکردگی۔
کام کرنے کی لگن اور انتھک محنت کا ریکارڈ دیکھتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر پاکستان کی پہلی خاتون تھری سٹار جنرل ہونے کا اعزاز بخشا۔ یہ بلاشبہ ضلع صوابی کے علاقے پنج پیر کے مذہبی اور عسکری خاندان کا ہی نہیں، بلکہ صوبہ خیبر پختونخوااور ملک پاکستان کے لیے اعزاز ہے۔ یہ پاکستان میں صنفی امتیاز کی بھی نفی ہے اور یہ ثابت ہوگیا ہے کہ انسان میں صلاحیت ہو تو ترقی کا ہر زینہ اس کے لئے کھلا ہے۔اور خواتین کے لیے ہر میدان میں مساوی مواقع موجود ہیں۔ اس فیصلے کا اقوام متحدہ سے لے کر پاکستان کے دوست ممالک نے خیر مقدم کیاہے اس طرح کے واقعات سے وطن عزیز کے حوالے سے عالمی سطح پر سافٹ امیج سامنے آتا ہے کہ یہاں پر صنفی امتیاز کے بغیر سب کو برابر کے مواقع حاصل ہے اور اپنی صلاحیتوں کے مطابق جو چاہے اپنا مقصد حاصل کرسکتا ہے۔